خضدار ہمیشہ سے بلوچ قوم پرستی اور بلوچ دوستی کا گڑھ رہا ہے۔ بہت سے سیاسی تحاریک نے یہاں سے جنم لیا ہے اگر خضدار کو شہداء اور اسیران کا سرزمین کہا جائے تو بےجا نہ ہوگا ۔ تعلیمی، سیاسی، سماجی اور مزاحمتی میدان میں خضدار کے فرزندوں کا ایک اہم اور کلیدی رول رہا ہے، جب 2000 میں موجودہ مزاحمتی تحریک سر اُٹھانے لگا تو یہاں کے نوجوان بھی اپنے آباواجداد کی تاریخ ،قربانیوں اور اُن کے دشمن سے لڑنے کی روایات کو زندہ رکھتے ہوئے تحریک سے منسلک ہوئے اور اپنے سرزمین مادر وطن سے سچی محبت کا عہد و پیماں کرتے ہوئے اس کی حفاظت کے لئے سربکفن اور سینہ سپر ہوگئے اور ان بلوچ فرزندوں کو بیک وقت دو محاذوں پر دو الگ الگ دشمنوں کے خلاف جنگ لڑنا پڑا ایک طرف ریاست، ریاستی اداروں ، فوج اور ایجنسیوں سے وہ لڑے رہے تھے تو دوسری جانب پارلیمانی پارٹیاں، میر و متعبرین، مقامی ریاستی ایجنٹوں اور ڈیتھ اسکواڈ سے بھی نبردآزما ہوئے تمام تر ریاستی ظلم و جبر اور بلوچیت کے لبادے میں آستین کے سانپوں کی ڈسنے کے باوجود اُن کے عزم و حوصلے کمزور نہیں ہوئے ساتھیوں کے جنازوں کو کندھا دینے کے باوجود اُن کے کندھے کمزور ہونے کے بجائے مزید مضبوط ہوتے گئے اور وہ اپنے ان کندھوں پر جہاں ساتھیوں کے لاشیں اُٹھا رہے تھے وہیں سرزمین اور قوم کے حفاظت کا بیڑا بھی اٹھایا ہوا تھا ۔
ایک طرف ریاست اور ریاستی ادارے بلوچ تحریک اور تحریک سے جڑے تمام طبقات کو نشانہ بنا رہے تھے۔ جن میں معصوم طالب علم، سیاسی کارکن، وکلاء ڈاکٹر، ٹیچر، صحافی، سماجی کارکن، شاعر و ادیب اور تاجر شامل تھے جن کا قصور صرف اتنا تھا کہ وہ اپنے دل میں بلوچستان اور بلوچ قوم کے لئے درد رکھتے تھے وہ نوجوانوں کو علم کے زیور سے آراستہ کرنا چاہتے تھے، وہ اپنے قلم سے ظلم و بربریت کا داستان لکھتے، وہ مفلوک الحال لوگوں کو علاج و معالجہ کی سہولت فراہم کرتے، وہ سماجی برائیوں سماجی ناانصافی اور نا برابری کے خلاف آواز بلند کرتے تھے، اس لئے وہ مارے گئے اُنکی آواز کو خاموش کردیا گیا لیکن پھر بھی وہ بلوچ فرزندوں کے حوصلوں کو شکست دینے میں ناکام و نامراد رہے۔
ٹارگٹ کلنگ، مسخ شدہ لاشیں، گمشدگیوں کے باوجود تحریک رکنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا پھر ریاست نے توتک کے سر سبز دیار کو خون سے سُرخ کردیا گیا سینکڑوں بلوچ فرزندوں کو اجتماعی قبروں میں زندہ گاڑ دیا گیا اور چنگیز و ہلاکو خان کے مظالم کو بھی مات دے دی گئی لیکن بلوچوں کے حوصلوں کو پھر بھی نہیں توڑ سکے۔ تمام ریاستی جبر و زوراکی سے بلوچ تحریک کے سامنے باندھ باندھنے اور لوگوں کو خوفزدہ کرنے میں ناکام رہے جب ریاست اور ریاستی اداروں نے یہ محسوس کیا کہ طاقت سے لوگوں کو نہیں ڈرایا جاسکتا اُن کے دلوں میں بلوچ آزادی پسند جہد کاروں کے لئے پائی جانے والی محبت کو ختم نہیں کیا جاسکتا تو ریاست نے اپنا پنترا بدل دیا عوام کی اعتماد کو بحال کرنے اور لوگوں کو ریاستی اداروں سے قریب کرنے کے لئے ایک سرکاری آفیسر وحید شاہ کو خضدار لایا گیا اور ریاستی ڈیتھ اسکواڈ کے سربراہ شفیق مینگل کو توتک سے باڈڑی وڈھ منتقل کیا گیا اور بلوچستان کے لوگوں کو یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ شفیق مینگل کے سر پر ریاست کا ہاتھ نہیں اُن کے کچھ کارندوں کو مارا گیا کچھ کو پکڑ کر جیل میں ڈال دیا گیا اور اس دوران لوگوں کو مراعات و مفادات دئیے گئے کچھ لوگ لالچ کا شکار ہوکر ریاستی اداروں سے تعلقات بڑھانے لگے ور ڈی سی وحید شاہ نے غیر محسوسانہ طریقے سے لوگوں کو تحریک کے خلاف استعمال کرنا شروع کیا۔
فوج اور لوگوں کے درمیان خلیج کو دور کرنے کے لئے اپنے تمام تر ذرائع استعمال میں لائے۔ نیشنل پارٹی، بی این پی، جمعیت، بی این پی عوامی، پی پی اور مسلم لیگ نے بھی بلوچ تحریک کے خلاف بھرپور کردار ادا کئے اور اب بھی یہ تمام پارٹیاں خفیہ اداروں کے ساتھ ملکر بلوچ آزادی پسندوں کے خلاف سرگرم ہیں۔ ان کے علاوہ مقامی مخبروں کو سرگرم کیا گیا بلوچ سرمچاروں اور بلوچ تحریک سے لوگوں کو بدظن کرنے کے لئے مختلف حربے استعمال کئے گئے، چوروں اور ڈاکووں کو پارلیمانی سیاسی پارٹیوں میں شامل کیا گیا، صحافیوں، تاجروں، سرکاری ملازمین ،ملاؤں ، طالب علموں ، سمیت دیگر مکتبہ فکر کے لوگوں کو مختلف مراعات سے نوازا گیا جو سلسلہ تاحال جارہی ہے، این جی اوز اور سماجی تنظیموں کا قیام عمل میں لاکر اپنے ایجنٹوں کو اُن میں شامل کیا گیا اور بڑی تعداد میں خواتین کو ان نام نہاد این جی اوز سے منسلک کرکے شہر میں جاسوسی کرنے کا ایک جال بچھایا گیا ہے۔
یہ نام نہاد سماجی تنظیموں کے سربراہ سماجی برائیوں میں ملوث رہے ہیں اُن کے ذریعے لوگوں میں راشن وغیرہ تقسیم کرکے اُن کا ڈیٹا جمع کرنے کا سلسلہ شروع کیا گیا جو سلسلہ تاحال جاری ہے۔ اس کے علاوہ مختلف سیاسی و سماجی فورمز اور تعلیمی اداروں میں ریاستی اثر اسوخ کو بحال کرنے کے لئےداخلہ مہم چلانے کے بہانے اپنے منظور نظر طلباء کو خفیہ اداروں نے سرگرم رکھا ، اسپورٹس سمیت غرض ہر جگہ اپنے مخبروں کو گھسادئیےاور صحافیوں کو مراعات سے نوازا گیا آج خضدار پریس کلب خفیہ اداروں کو ہیڈ کواٹر بن چکا ہے۔ لوگوں کو ڈرانے دھمکانے اور بلیک میل کرنے کے لئے یہ اخباری رپورٹر پیش پیش ہیں جبکہ سوشل میڈیا پر مختلف گم نام آئی ڈیز سے بلوچ تحریک، رہنماؤں اور مسلح تنظیموں کے خلاف پروپیگنڈہ کرنے کا ذمہ بھی خضدار پریس کلب کے نام نہاد صحافیوں کو سونپ دی گئی ہیں۔لیکن ان تمام اقدامات کے باوجود گزشتہ چند مہینوں سے بلوچ سرمچاروں کے خضدار میں مسلح کاروائیوں نے ریاست اور ریاستی ایجنٹوں کی نیندیں حرام کرچکی ہیں۔ گزشتہ ایک ماہ میں ریاستی ایجنٹوں شفیق مینگل جو کہ سابقہ ایم این اے عبدالروف مینگل کے بھائی ہےاس علاوہ بابو یوسف اور بشیر حلیمی کو بھی نشانہ بنائےگئے جن کو نشانہ بنانے کی ذمہ داری تاحال کسی بھی گروپ نے قبول نہیں کیا ہے۔ 14 اگست کو جشن آزادی کےریلی کے موقع پر ایف سی کو نشانے بنانے اور گزشتہ دنوں ٹرمپ مخالف ریلی پر حملے نے ریاست اور مقامی دلالوں کے تمام اُمیدوں پر پانی پھیر دئیے ہیں ۔ باوثوق ذرائع کے مطابق گزشتہ دنوں ہونے والی مسلح کاروائیوں کے بعد فوج اور خفیہ اداروں نے مقامی مخبروں سے سخت ناراضگی کا اظہار کیا ہے۔
جس سطح کی قوت اور بے رحمی ریاست نے خضدار میں استعمال کی اسکی شاید ہی مثال ملتا ہو، ایک وقت ایسا بھی تھا کہ خضدار کی آدھی آبادی شہر چھوڑ کر جاچکا تھا اور 2011 میں محض ایک ہفتے کے اندر 70 لوگ جابحق ہوئے تھے ۔ اس وحشت اور بربریت کے بعد ریاستی ادارے اس خوش کن فریب میں آگئے کے انہیں نے خضدار سے تحریک کا تاابد خاتمہ کرلیا ہے لیکن اسکے باوجود سر اٹھاتا تحریک یہ ثابت کرتی ہے کہ بلوچ کے جذبہ آزادی کو بزور قوت ختم کرنا ناممکن ہے۔ دشمن اگر پورے نسل کا بھی خاتمہ کردے پھر اگلی نسل ان گرے ہوئے بندوقوں کو دوبارہ اٹھانے کیلئے تیار ہوگی اور جنگ وہیں سے شروع ہوگی جہاں سے روکی تھی اور یہ سلسلہ تب تک جاری رہے گا جب تک یہ تحریک اپنے منطقی انجام تک نہیں پہنچتی۔