یورپ کے سرکردہ تھنک ٹینک ‘ ہیگ ریسرچ سینٹر فار اسٹریٹیجک اسٹڈیز’ نے ‘سی پیک’ کو متنازع قرار دے کر کہا ہے کہ اس منصوبے میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی جارہی ہے، اور اسکی سڑکیں گلگت بلتستان جیسی متنازع علاقوں سے ہوکر گزر رہی ہیں۔
اسی تھنک ٹینک سے تعلق رکھنے والے ایک تزویراتی تجزیہ کار ‘ولیم اوسٹرویلڈ’ نے کہا ہے کہ، “دنیا بھر میں متنازع علاقوں میں تعمیرات کے حوالے سے قوانین موجود ہیں، اور ‘سی پیک’ ان بین القوامی قوانین پر پورا نہیں اترتی۔ ہم فلسطین میں اسرائیلی بستیوں سے اسکا موازنہ نہیں کرسکتے کیونکہ یہ ایک الگ پیچیدہ معاملہ ہے”۔
حال ہی میں امریکی سیکریٹری دفاع ‘جیمز میٹس’ نے بھی پاکستان چائنا اکنامک کاریڈور ‘سی پیک’ کی قانونی حیثیت پر سوال اٹھایا تھا۔
سی پیک پاکستان میں چین کی جانب سے خطیر رقم پر مبنی ایک منصوبہ ہے، جہاں چین سڑکوں، ریلوے اور پانی کے راستہ استعمال کرکے بلوچستان کے گرم پانیوں کو چین کے لینڈ لاک خطے ‘ شن ژیانگ’ سے جوڑے گا۔ یہ سڑکیں دو متنازع علاقوں سے گزر رہے ہیں، جس میں بلوچستان اور گلگت بلتستان شامل ہیں۔
بین القوامی انسانی حقوق کے ادارے بھی اس منصوبے پر تشویش کا اظہار کرتے آئے ہیں، کہ بلوچستان کے کئی علاقوں سے لوگوں کو علاقہ بدر کیا جا رہا ہے تا کہ وہاں سڑکیں تعمیر کی جائیں۔
انکے مطابق پاکستانی فوج بلوچ آبادی پر بھروسہ نہیں کرتی اور چینی منصوبے کو کامیاب بنانے کے لیئے سیکورٹی کو مدِ نظر رکھ کر بیشتر بلوچ دیہی علاقے خالی کروا چکے ہیں۔ جن میں تربت، آوارن اور پنجگور کے علاقے متاثر ہوئے ہیں۔
بلوچ آزادی پسند جماعتوں کی جانب سے بھی اسی طرح کے بیانات سامنے آچکے ہیں، جہاں انھوں نے پاکستانی فوج کی جانب سے لوگوں کو علاقہ بدر کرنے کے ساتھ ساتھ فوجی آپریشنوں کی مذمت کی ہے۔ بلوچ نیشنل موومنٹ کے ترجمان کے مطابق آواران، تربت اور پنجگور کے علاقوں میں ماضی میں فوجی آپریشن ہوچکے ہیں مگر ‘سی پیک’ منصوبے کے اعلان کے بعد ان میں شدت لائی گئی ہے۔
واضح رہے بلوچستان میں اب تک چار بڑی آزادی کی تحریکیں اپنا عروج و زوال دیکھ چکی ہیں، مگر سنہ دو ہزار سے اب تک جاری رہنے والی ‘انسرجنسی’ ان سب میں سے طویل ترین اور جدید ہے۔ بلوچ آبادی ‘سی پیک’ منصوبے کو ایک استحصالی منصوبے کی نظر سے دیکھتی ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ کے نمائندے نے لسبیلہ یونیورسٹی میں آبی حیات و ماحولیات کے ایک پروفیسر سے ‘سی پیک’ منصوبے کے ماحولیاتی اثرات کے حوالے سے انکی رائے جانی، انھوں نے کہا کہ” سی پیک منصوبہ شاید پاکستان کے معیشت کے لیئے بہتر ثابت ہو مگر اسکے نتیجے میں بلوچستان کی سمندری حیات پر کافی برا اثر پڑیگا، بندرگاہوں پر بڑی بحری جہازوں کی آمد اپنے ساتھ سمندری آلودگی بھی لاتی ہے اور اس سے مچھلیوں کی ایسی نسلیں مذید خطرے کا شکار ہوجائیں گی جو پہلے سے ‘ ایکسٹنکٹ’ ہونے کی کگار پر ہیں”۔
انھوں نے مذید کہا کہ،” بلاشبہ بلوچستان کے ساحلی علاقوں میں زیادہ تر لوگوں کا زریعہ معاش ماہی گیری ہے، اور ساحلوں پر چینی بحری جہازوں کے قبضے کا مطلب ماہی گیروں کے معاشی قتل کے مترادف ہے”۔
یورپین فاونڈیشن فار ساوتھ ایشین اسٹڈیز نامی تنظیم کے ریسرچر ‘ یونا باراکوا’ نے سی پیک کے ماحولیاتی اثرات کے حوالے سے بتایا ہے کہ، ” اس سچ کے باوجود کہ سی پیک اپنے ساتھ کئی منفی ماحولیاتی اثرات لائیگی، بلکہ یہ علاقے پہلے سے ہی آب و ہوا میں تبدیلی کے باعث خشک سالی جیسی دیگر مسائل کا شکار ہیں۔”
بلوچستان، گلگت اور سندھ سے تعلق رکھنے والے متعدد انسانی حقوق کے کارکن اور سیاسی کارکنان انہی حقائق کو سامنے لانے کی پاداش میں لاپتہ ہوئے ہیں یا پھر ملکی سالمیت کے خلاف سازشیں کرنے کے الزامات کا سامنا کر رہے ہیں۔