لینڈ ریفارمز: بلوچستان میں سوشلسٹ پروگرام کی ضرورت
تحریر: ظہیر بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
اگر بلوچستان کی معیشت کا تاریخی جائزہ لیا جائے ظاہر ہوتا ہے کہ لائیو اسٹاک اور زراعت کو بلوچستان کی واحد تاریخی طور پر مستحکم indigenous economy کی حیثیت حاصل رہی ہے۔
سامراجیت سے قبل بارانی آبی نظام کے تحت بلوچستان کے بیشتر علاقہ جات آباد ہوتے تھے جس سے بلوچستان میں انسانوں کے ساتھ ساتھ حیوانوں کو بھی food security فراہم ہوتی تھی۔ دیکھا جائے تو یہاں کے مفکر خواہ وہ قوم پرست ہوں یا مزہبی یا محب وطن؛ کسی نے خاطرخواہ کوشش نہیں کی کہ زراعت کو بطور بلوچ معیشت سمجھنے کی کوشش کریں۔
برصغیر میں جب انگریز سامراج کے خلاف عوامی مزاحمت زور پکڑنے لگی تو اسے گھٹانے کے لئے 1930 میں سکھر بیراج سے کھیرتھر کینال کی بنیاد رکھی گئی۔ جسکے تحت جعفرآباد کی زمینوں کو آباد کرنے کا منصوبہ عمل میں لایا گیا۔ بعد ازاں جب ایوب خان کی آمریت آئی تو کھیرتھر کینال کا ایکسٹینشن عمل میں لایا گیا جس سے جعفرآباد کے بقیہ علاقہ جات آباد ہوئے۔ بزرگ بتاتے ہیں کہ انہیں اب تک کھیرتھر کینال کے زرعی اصلاحات یاد ہیں۔ انکے مطابق سبی جدید اور نوشکی جدید کے علاقے کھیرتھر کے زرعی اصلاحات کے وقت کاشتکاروں کو مالکانہ حقوق ملے۔ پٹ فیڈر کے زرعی اصلاحات کی مخالفت کی طرح یہاں بھی زمینی تکرار اس بنیاد پر رہے کہ جاگیرداروں کو زیادہ زمین رکھنے کی لالچ تھی۔ کھیرتھر کے زرعی اصلاحات پر خاطرخواہ کسان تحریک نا ابھر سکی مگر پٹ فیڈر کے زرعی اصلاحات تک مقامی کاشتکار یہ سمجھ چکے تھے کہ زمین اگر انکے پاس نا رہی تو اس روئے زمین پر دوسرا کوئی متبادل نہیں اور انکا مستقبل تاریک ہو گا۔ مگر کچھی کینال ابھی تک مکمل نہیں ہوا کہ جھل مگسی اور ضلع کچھی میں خون ریز جنگ جاری ہے۔
عرصہ دراز سے زمین کے گرد لڑائی نصیرآباد ریجن کے طبقاتی کشمکش کو آشکار کرتی ہے۔ بلوچستان کے زرعی بیلٹ ناڑی کے علاقہ جات میں خون ریز جنگوں کو کوتاہ قد بونے لکھاری قبائلی تکرار قرار دیتے رہے۔ جھل مگسی اور کچھی میں جاری لڑائی طبقاتی ہے۔ جس میں چھوٹے کاشتکار اور جاگیردار مدمقابل ہیں۔ ظالم اور مظلوم مدمقابل ہیں حاکم اور محکوم مدمقابل ہیں؛ دو طبقوں کی لڑائی ہے۔ خیرالنسا ایک چھوٹے کاشتکار کی بیٹی ہے۔ گزشتہ روز مگسی نواب اور حلقے کے ایم این اے خالد مگسی کے مسلح گروپس کی جانب سے ان پر اور ان کی والدہ پر گولیاں برسائی گئیں۔ خالد مگسی عملاً ایک دیوبند مولوی اور بظاہر مزہبی انسان ہیں مگر دوسری جانب نہتی عورتوں کی وڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ وہ قران سر پر اٹھائے اسی خدا سے مدد کی اپیل کرتی رہ گئیں جس کے خالد مگسی پیروکار ہیں۔ مگسی صاحب نے نا خدا کا خیال رکھا، نا عورت کا اور نا ہی اسکے سر پر قرآن کا۔ گھنٹوں لگاتار فائرنگ کے بعد اسکی بیٹی کو لہو لہان کرکے بے آسرا چھوڑ دیا گیا۔ اب اگلی باری سرکار کے خداوندی کی تھی۔ زخمی بہن کو بچانے کے لئے ارباب جویہ گھنٹوں تک ضلعی سرکاری انتظامیہ کو کال کرتے رہے مگر سرکار نے قبضہ گیر نواب کے زر پرست مسلح لشکروں کے ساتھ تعاون کرتے رہے۔ سرکار اور ریاست بھی عورت دشمن سردار و نواب کو ہی زمین کا وارث سمجھ کر خاموش ہے مگر زمین تو بے زبان ہے وہ کیسے گواہی دے سکتی ہے کہ اس پہ کیا ستم بیتی؟ کچھی میں جب لہڑی قبیلے کے مسلح جتھے مختلف گاؤں پر قابض ہوکر گھروں میں داخل ہوئے تو مرغیاں اور بکرے زبح کرکے پکنک منائ اور اس ڈھٹائی کی اور بربریت کی وڈیو بھی بنائی۔ توسیع پسندی کے عزائم لیکر کسانوں پر حملہ آور ہونے والوں کا راستہ روکا جائے۔ فسطائیت کی سیاست کو فروغ دینے والوں کا راستہ روکا جائے۔ فسطائیت سرمایہ دارانہ نوآبادیاتی نظام اور نیم جاگیردارانہ نظام کو قائم رکھنے کے لئے بزور طاقت عوامی آواز کو کچلنے کے عزائم رکھتا ہے۔ مگسی نواب اور دیگر قبائلی قیادت اسی فسطائیت کا مظاہرا کر رہے ہیں تاکہ اپنی جاگیردارانہ اجاراداری کو برقرار رکھ سکیں۔ جعفر مگسی جیسے سیاسی کردار گرین بیلٹ میں رواداری کی سیاست کی دھجیاں اڑاتے ہوئے فسطائیت کو فروغ دے رہے ہیں۔ جس میں کہیں بندوق کے زور پر گاؤں کے گاؤں پر حملہ آور ہوکر انہیں مسمار کیا جاتا ہے۔ املاک کو لوٹا جاتا ہے۔ فصلیں زبردستی اٹھائی جاتی ہیں۔ خواتین پر گولیاں چلائی جاتی ہیں۔ عوام کو چاہیے کہ انکے انسان دوست چہروں سے بے وقوف نا بنے اور اس بدبودار سیاست کا ہر صورت انکار کریں، جس میں عورتوں پر گولیاں چلانے والوں کی حوصلہ افزائی ہو۔ *یہ تب تک ممکن نہیں جب تک ایک سوشلسٹ پروگرام کے تحت حقیقی لینڈ ریفارم نا کئے جائیں اور جاگیردارانہ پیداواری تعلقات کا عوامی جدوجہد کے ذریعے خاتمہ نا کیا جائے.
بلوچستان کی معیشت میں یہ تبدیلی پارلیمانی راستے سے حاصل نہیں کی جا سکتی کیونکہ ایک نیم جاگیردارانہ ریاست کبھی نیم جاگیرداری کا خاتمہ نہیں کر سکتی. جب بھی ایک نیم جاگیردارانہ ریاست نے لینڈ ریفارم کی پالیسی اختیار کی ہے، تو یہ کبھی کاغذی کاروائی سے آگے نہیں بڑھی. اس کی وجہ یہ ہے کہ جاگیردار صدیوں سے قائم فیوڈل قدروں، روایات اور تحضیب کے ذریعے اپنی سیاسی اور اقتصادی قوت کو برقرار رکھتے ہیں اور اس کا خاتمہ راتوں رات ایک بل پاس کر کے نہیں کیا جاسکتا خاص کر جب اس بل کو نافض کرنے والے ادارے بھی اس فیوڈل ثقافت کی وجہ سے ان جاگیرداروں کے حکم کی تعمیل کا ذریعہ ہوتے ہیں. ان استحصالی پیداواری تعلقات کو صرف مزدوروں اور کسانوں کی قیادت میں ایک طویل عوامی جدوجہد کے ذریعے ختم کیا جا سکتا ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں