بلوچستان سے جبری گمشدگیوں کے خلاف عید کے روز تربت، گوادر، کوئٹہ، خضدار اور پنجگور سمیت اسلام آباد میں احتجاجی مظاہرے کئے گئے-
احتجاجی مظاہروں کی کال بلوچ لاپتہ افراد کے لواحقین، طلباء و سیاسی تنظیموں کی جانب سے دی گئی تھی، ان احتجاجی مظاہروں میں مختلف مکاتب فکر کے افراد نے شرکت کرتے ہوئے بلوچ لاپتہ افراد کے لواحقین سے اظہار یکجہتی کی اور جبری لاپتہ افراد کی بازیابی کا مطالبہ کیا-
تربت
جبری گمشدگیوں کے خلاف پہلا احتجاج ضلع کیچ کے مرکزی شہر تربت میں لاپتہ افراد کی لواحقین اور بی ایس او کے زیر اہتمام احتجاج کیا گیا-
تربت مظاہرین کا کا اس موقع پر کہنا تھا آج کے احتجاج کا بنیادی مقصد قومی اور بین الاقوامی سطح پر ریاستی جبر و تشدد اور بلوچ قوم کے ساتھ جابرانہ رویے کو دنیا کے سامنے بے نقاب کرنا ہے تاکہ مہذب اقوام بلوچستان میں ریاستی جبر پر لب کشائی کرکے یہاں کے لوگوں پر جبر اور ستم کو روکنے میں کردار ادا کرسکیں۔
تربت احتجاج کے شرکاء کا کہنا تھا ریاست کو چاہیے کہ وہ اپنے پالیسیوں پر نظرثانی کرے اس سے پہلے کہ دیر ہو جائے، بلوچ قوم راستے پر پڑا کوئی پتھر نہیں کہ جسے کسی دیوار میں پیوست کیا جائے اور وہ چپ رہے، بلوچ ازل سے مزاحمتی کردار کا مالک رہا ہے، اگر بات بلوچ کی بقاء کی ہو تو وہ کسی بھی حد تک جا سکتا ہے۔
خضدار
خضدار میں جبری گمشدگیوں کے شکار لاپتہ افراد کے لواحقین بھی عید کے موقع پر سڑکوں پر نکل آئے اور سالوں سے جبری طور پر لاپتہ پیاروں کی بازیابی کا مطالبہ کیا-
خضدار میں لاپتہ افراد کے لواحقین کی جانب سے شہید عبدالرزاق چوک پر احتجاج ریکارڈ کرائی گئی-
اس موقع پر لاپتہ افراد کے لواحقین نے کہا ہے کہ جبری گمشدگیوں کی ان ظالم ریاستی احکامات اور اپنی پیاروں کی باحفاظت بازیابی کیلئے لاپتہ افراد کے لواحقین ایک مرتبہ پھر عید کے دن عید منانے کی بجائے اپنے پیاروں کی بازیابی کیلئے ایک احتجاجی مظاہرہ کررہے ہیں-
گوادر
عید کے روز گوادر میں بھی حق دو تحریک و لاپتہ افراد کے لواحقین کے زیر اہتمام جبری گمشدگیوں کے خلاف احتجاج ریکارڈ کرائی گئی-
گوادر مظاہرے میں فورسز کے ہاتھوں لاپتہ عظیم دوست بلوچ، بولان کریم، نسیم بلوچ اور دیگر لاپتہ افراد کے لواحقین سمیت حق دو تحریک کے رہنماؤں و مختلف سیاسی پارٹیوں کے مقامی رہنماؤں کے علاوہ خواتین و بچوں کی بڑی تعداد شریک تھیں-
مقررین نے کہا کہ ریاست مجرم ہے جو لوگوں کو سالوں سے لاپتہ کرتا ہے اگر یہ لوگ مجرم ہیں تو انکو عدالتوں میں پیش کیا جائے اس طرح لاپتہ کرکے غائب کرنا جرم ہے اور یہ جرم ریاست کی طرف سے ہورہی ہے-
گوادر مظاہرے میں شرکت کرنے والی لاپتہ عظیم دوست کی بہن رخسانہ دوست نے بتایا میرے بھائی کو جبری لاپتہ کیئے آٹھ سال کا عرصہ ہوگیا ہے، آئے روز ہم سڑکوں پر نکل کر انصاف کا مطالبہ کرتے ہیں تاہم اتنے احتجاجوں کے باوجود ارباب اختیار و لاپتہ کرنے والوں پر کوئی بھی اثر نہیں پڑ رہا-
رخسانہ دوست نے کہا کہ ہمارا مطالبہ ہمیشہ رہا ہے کہ بھائی کو بازیاب کیا جائے، ہم بار بار یہی مطالبہ کررہے ہیں کہ اگر وہ مجرم ہیں تو عدالتوں میں پیش کریں اور ان پر جرم ثابت کریں تاہم عدالتیں بھی شہریوں کو انصاف فراہم کرنے میں ناکام ہیں۔
گوادر مظاہرین نے حق دو تحریک کے رہنماء مولانا ہدایت الرحمٰن کے بازیابی کا بھی مطالبہ کیا۔
آج مختلف شہروں میں احتجاجی مظاہروں کے دوران پولیس و پاکستانی فورسز کی جانب سے مظاہروں میں روکاوٹیں پیدا کرنے کے واقعات بھی سامنے آئے جہاں گوادر میں پولیس نے مظاہرین کی ریلی کو روکنے کی کوشش کی جبکہ خضدار میں ایف سی کی جانب سے لاپتہ افراد کے لواحقین کو ہراساں کیا گیا-
کوئٹہ
عید کے موقع پر مختلف شہروں میں مظاہروں کے ساتھ ساتھ بلوچستان کے دارلحکومت کوئٹہ میں بھی وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز و بلوچ یکجہتی کمیٹی کی جانب سے احتجاجی ریلی نکالی گئی-
مظاہرین نے کوئٹہ پریس کلب کے سامنے احتجاجی ریکارڈ کراتے ہوئے بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کی روک تھام اور لاپتہ افراد کی بازیابی کا مطالبہ کیا، اس موقع پر بلوچستان نیشنل پارٹی، بی ایس او سمیت مختلف سیاسی و سماجی تنظیموں کے ارکان و رہنماء شریک ہوئے-
پنجگور
اسی طرح بلوچستان کے ضلع پنجگور میں بھی عید کے روز شہر جبری گمشدگیوں کے خلاف سراپا احتجاج ہوئے اور لاپتہ افراد کی فوری بازیابی کا مطالبہ کیا-
پنجگور مظاہرین کا کہنا تھا بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کا سلسلہ طویل عرصے سے جاری ہے جس نے بلوچستان میں حالات کو مزید گھمبیر کردیا ہے ریاست بلوچوں کے خلاف اپنا یے رویہ ترک کردے وگرنہ حالات بہتری کے بجائے مزید بگاڑ کی طرف جائینگے اور ان تمام حالات کا ذمہ دار ریاست اور اسکے ادارے ہونگے-
اسلام آباد
عید کے پہلے روز بلوچستان کے مختلف شہروں میں جبری گمشدگیوں کے خلاف احتجاج کے ساتھ ساتھ پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں بھی بلوچ طلباء تنظیموں کی جانب سے اسلام آباد نیشنل پریس کلب کے سامنے احتجاج ریکارڈ کرائی گئی جہاں مظاہرین نے پاکستانی فورسز کی جانب سے حراست میں لئے گئے ماہل بلوچ و دیگر لاپتہ افراد کی تصاویر ہاتھوں میں اُٹھائے ہوئے تھے-
اسلام آباد احتجاج سے خطاب کرتے ہوئے مقررین کا کہنا تھا بلوچستان میں جبری گمشدگیاں مزید شدت اختیار کرچکے ہیں پہلے صرف بلوچ مردوں کو اُٹھا کر ماورائے آئین و قانون لاپتہ کردیا جاتا تھا اب تو سرعام بلوچ خواتین کو بھی لاپتہ کیا جارہا ہے لیکن ریاست اس طرح تماشہ لگاکر صرف اور صرف حالات کو اپنے لئے بلوچستان میں بدتر بنا رہا ہے-
طلباء کا کہنا تھا ہم اپنے گھروں کو عید کے روز اس لئے لوٹ کر نہیں جاتے کہ ہمارے گھر والوں کو خوف لاحق ہوتی ہے ہمیں بھی اُٹھاکر جبری لاپتہ کردیا جائے گا لیکن اب حالات اس نہج تک پہنچ گئے ہیں کہ بلوچ طلباء اور شہری پنجاب میں بھی محفوظ نہیں اُنھیں اُٹھا کر لاپتہ کیا جارہا ہے-
دریں اثناء اسلام آباد بلوچ طلباء کی جانب سے لاپتہ افراد کے لئے احتجاج میں سول سوسائٹی کی بھی متعدد ارکان شریک ہوئے-