بلوچستان کے علاقے بولان میں گذشتہ سولہ روز سے پاکستانی فورسز آپریشن کررہی ہے۔ دو روز قبل ہسپتال منتقل کیے جانیوالے افراد کی شناخت پہلے سے جبری لاپتہ افراد کے طور پر ہوگئی ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ نیوز ڈیسک کو موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق دو روز قبل پاکستانی فورسز نے سول ہسپتال کوئٹہ میں تین افراد کی لاشیں منتقل کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ مذکورہ افراد بولان کے علاقے مارواڑ میں فوجی آپریشن کے دوران مارے گئے ہیں۔
تاہم مذکورہ افراد کی شناخت پہلے ہی سے جبری طور پر لاپتہ افراد کے طور پر ہوئی ہے جنہیں مختلف اوقات میں پاکستانی فورسز نے لاپتہ کیا تھا۔
مذکورہ افراد میں سے ایک کی شناخت غلام فرید شاہوانی ولد غلام مصطفیٰ شاہوانی سکنہ کلی کاریز سور مستونگ کے نام سے ہوئی ہے جنہیں اگست 2022 میں پاکستانی فورسز نے حراست میں لیکر نامعلوم مقام پر منتقل کیا تھا۔
قتل کیے جانیوالے دوسرے شخص کی شناخت عظیم خان ولد یار خان مری کے نام سے ہوئی ہے جو ہرنائی کے علاقے نشپا کا رہائشی تھا جبکہ وہ گلہ بانی کرکے اپنا گذر بسر کررہا تھا۔
عظیم خان کے خاندانی ذرائع نے بتایا کہ انہیں 21 مارچ 2023 کو پاکستانی فورسز نے چیک پوسٹ پر اس وقت حراست میں لیکر لاپتہ کردیا جب وہ کوئٹہ سے ہرنائی کی جانب سفر کررہا تھا۔
خیال رہے 30 اگست 2017 کو نشپا میں ایک فوجی آپریشن کے دوران پاکستانی فوج نے عظیم خان کے خاندان کو نشانہ بنایا تھا۔ مذکورہ آپریشن میں عظیم خان کی والدہ، بہن اور بہو و بھتیجی سمیت 9 افراد کو قتل کیا گیا۔
مارواڑ جعلی مقابلے میں قتل کیے جانیوالے والے تیسرے شخص کی شناخت حضرت سمالانی ولد ملا محمد خان کے نام سے ہوئی ہے جن کا بنیادی تعلق سنجال (غربوک) سے ہیں۔
ذرائع نے تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ حضرت کو 23 مارچ 2023 کو پاکستانی فورسز نے ہرنائی سے حراست میں لیکر نامعلوم مقام پر منتقل کردیا تھا جس کے بعد وہ لاپتہ تھا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ مذکورہ خاندان گلہ بانی کے پیشے سے منسلک ہے، سال 2015 میں سنجاول میں پاکستانی فوج کے آپریشن کے باعث نقل مکانی کرکے ہرنائی کے علاقے شاہرگ منتقل ہوگئے جبکہ مقتول حضرت کو 2017 میں بھی جبری طور پر لاپتہ کرکے سات مہینے بعد رہا کیا گیا۔
بلوچستان میں جعلی مقابلے:
بلوچستان میں پاکستانی فورسز کی کاروائیوں کو مشکوک قرار دیا جاتا رہا ہے جبکہ کئی کاروائیاں میڈیا و متاثرہ لواحقین کے توسط جعلی قرار پائے ہیں تاہم حکومتی وزراء اور حکام ان کاروائیوں کا دفاع کرتے رہے ہیں۔
حالیہ کچھ وقتوں سے بلوچ قوم پرست حلقے، انسانی حقوق کی تنظیمیں پاکستانی فورسز کی جانب سے فوجی آپریشنوں میں عام آبادیوں کو نشانہ بنانے اور جعلی مقابلوں میں جبری لاپتہ افراد کو قتل کرنے پر تشویش کا اظہار کرتے رہے ہیں۔
گذشتہ سال جولائی میں پاکستانی فورسز نے زیارت کے قریب ایک مقابلے میں بلوچ لبریشن آرمی سے تعلق رکھنے والے 9 افراد کو مقابلے میں مارنے کا دعویٰ کیا تھا تاہم بعد میں ان کی شناخت پہلے سے زیر حراست لاپتہ افراد کے ناموں سے ہوئی تھی۔
گذشتہ سال بولان میں دس روز تک جاری رہنے والی فوجی آپریشن میں خواتین و بچوں کو زیر حراست رکھا گیا جبکہ آپریشن کے دوران گلہ بانوں کو بھی قتل کیا گیا۔
زیارت واقعے کے خلاف بلوچ لاپتہ افراد کے لواحقین نے پچاس دنوں تک گورنر ہاؤس کے سامنے دھرنا دیا تھا بعدازاں وفاقی وزیر رانا ثناء اللہ کی یقین دہانی پر کوئٹہ کے ریڈ زون میں احتجاج موخر کیا گیا جہاں مظاہرین کو کمیٹی نے یقین دہانی کرائی کہ جبری گمشدگیوں کی روک تھام کیلئے اقدامات اٹھائے جائینگے اور زیر حراست لاپتہ افراد جعلی مقابلے میں قتل نہیں کیا جائے گا۔
حالیہ واقعات کے بعد لاپتہ افراد کے لواحقین کے تشویش میں اضافہ ہوا ہے جبکہ انسانی حقوق کے تنظیموں سمیت سیاسی جماعتیں حکومت پر تنقید کررہے ہیں۔