جنگ، سائی اوپس اور نفسیاتی عِلتیں – برزکوہی

1787

جنگ، سائی اوپس اور نفسیاتی عِلتیں

تحریر: برزکوہی

دی بلوچستان پوسٹ

غلامانہ سماج اور خاص طور پر شورش زدہ اور جنگی ماحول، ہمیشہ نفسیاتی امراض کا کارخانہ ہوتا ہے۔ یہ امر انتہائی ضروری ہے کہ جنگی حالات سے پیدا شدہ نفسیاتی امراض کی نشاندہی و وضاحت ہوتی رہے، بدقسمتی سے حالت جنگ میں اس اہم اور پیچیدہ پہلو کو یا تو مکمل نظرانداز کیا جاتا ہے یا پھر اس پر بہت کم توجہ دی جاتی ہے۔

نفسیاتی جنگ میں ذہنی یا جذباتی قسم کی لڑائی شامل ہوتی ہے۔ نفسیاتی جنگ مخصوص اجزائے ترکیبی کو استعمال کرتی ہے، جیسے کے پروپیگنڈہ، دھمکی آمیز بیانات اور دشمن کو نفسیاتی الجھنوں و امراض سے دوچار کرنا۔ ان کا مقصد دشمن کی عقلیت اور اعمال کو بری طرح متاثر کرنا ہوتا ہے۔ نفسیاتی جنگ کے متعدد مطلوبہ اثرات میں دماغ اور جسم دونوں پر دشمن کا کنٹرول، دباؤ، یا کمزور کرنا شامل ہو سکتا ہے۔

نفسیاتی آپریشنز، یا “سائی اوپس”، نفسیاتی جنگ سے جڑے ہوئے ہوتے ہیں۔ “سائی اوپس” سے مراد وہ فوجی بنیاد پر کام ہیں، جو نفسیاتی جنگ کو انجام دینے کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ ان کارروائیوں کا منصوبہ عام شہریوں اور/یا دشمن کے فوجیوں کو مطلوبہ انداز میں کام کرنے پر مجبور کرنے کے لیے بنایا گیا ہے۔ “سائی اوپس” کو برین واشنگ کی ایک قسم سمجھا جاسکتا ہے کیونکہ اس کا مقصد لوگوں کے خیالات اور اعمال کا استحصال کرنا اور اپنی تئیں شکل دینا ہے۔

اسکی ایک مثال پروپیگنڈا بھی ہے، مواصلات یا اشتہار کی ایک قسم جس کا مقصد ہدف بنائے گئے گروپ کے سوچنے یا فیصلہ کرنے کے طریقے کو متاثر کرنا ہوتا ہے۔ بالآخر، پروپیگنڈہ مہم کا مقصد ایک آبادی کو بااثر معلومات متعارف کروا کر ایک مخصوص پیغام کے مطابق کارروائی کرنے پر مجبور کرنا ہے۔ اس نتیجے کا مقصد اس گروپ کے مفادات کی حمایت کرنا ہے، جو پروپیگنڈہ کرتا ہے۔ پروپیگنڈا کے مطلوبہ سامعین پورے معاشرے میں وسیع تر پیمانے پر موجود ہوتے ہیں، ہر عمر کے شہریوں سے لے کر فوجی اہلکاروں تک اسکا استعمال کیا جاسکتا ہے۔ ایک جیتنے والی پروپیگنڈہ مہم اپنے سامعین کو، اس کے ایجنڈے کو پورا کرنے کے لیے ٹھوس طریقے سے عمل کرنے کی ترغیب دے گی، نہ کہ صرف زبانی حمایت یا معاہدے کو۔

اسی طرح “سائی اوپس” کا ایک مقصد، دشمن کو شدید نفسیاتی مسائل میں الجھا کر، اسے ذہنی حوالے سے اس قدر ناکارہ بنادینا ہے کہ وہ جسمانی حوالے سے جنگ میں کماحقہ کردار ادا کرنے سے قاصر ہو۔

بلوچ تحریک میں اسکی مثال دشمن کی عورتوں و بچوں کو زدوکوب کرکے کسی جہدکار کو نفسیاتی دباو میں مبتلا کرنا، بے دریغ چھاپے مارنا، واضح اہداف نا ہونے کے باوجود اندھا دھند فائرنگ یا بمباری کرنا، جہدکاروں کے اہلخانہ یا رشتہ داروں کو شہید کردینا وغیرہ شامل ہیں۔ ان سب کا مقصد نفسیاتی جنگ میں برتری حاصل کرنا ہوتا ہے۔

جنگ بذات خود جسمانی سے زیادہ ایک نفسیاتی وار ہوتا ہے، طویل اور تھکا دینے والی جنگی ماحول میں فریقین کا ہر وقت کوشش ہوتا ہے کہ وہ ایک دوسرے کو نفسیاتی شکست سے دوچار کردیں۔ یہ نفسیاتی اثرات صرف زیر دست قوم کے حصے میں ہی نہیں آتے بلکہ قابض و جارح بھی ان کے لپیٹ میں رہتا ہے۔

جنگ جسمانی اور جذباتی طور پر جنگجو اور غیر جنگجو دونوں پر منفی اثر ڈالتی ہے۔ موت، چوٹ، جنسی تشدد، غذائی قلت، بیماری، اور معذوری جیسے مسائل انسانی نفسیاتی پر دوران جنگ گہرے اثر ڈالتے ہیں۔ جنگ کے جسمانی نتائج کی دھمکی، جبکہ پوسٹ ٹرامیٹک اسٹریس ڈس آرڈر، افسردگی اور اضطراب ان میں سے کچھ جذباتی اثرات ہیں۔

اس حوالے سے ہم دوسرے جنگی ذہنی امراض کے ساتھ ساتھ خاص طو پر پوسٹ ٹرامیٹک اسٹریس ڈس آرڈر کے حوالے سے بات کرتے ہیں کہ کیسے پی ٹی ایس ڈی جہدکاروں کو متاثر اور ناکارہ کرسکتا ہے۔

یہ مرض صرف شوررش زدہ خطوں یا غلامانہ سماج میں ہی جنم نہیں لیتا بلکہ ہر خطے و سماج میں یہ انسانی نفسیات کو متاثر کرسکتا ہے لیکن شورش زدہ و غلامانہ سماجوں میں اس کے اثرات گہرے ہوتے ہیں۔

پوسٹ ٹرامیٹک اسٹریس ڈس آرڈر (PTSD) ایک نفسیاتی عارضہ ہے، جو ان لوگوں میں ہوسکتا ہے، جنہوں نے کسی تکلیف دہ واقعے کا تجربہ کیا ہو یا اس کا مشاہدہ کیا ہو۔ ایک فرد اسے جذباتی یا جسمانی طور پر نقصان دہ یا جان لیوا محسوس کرسکتا ہے، یہ انسانی ذہنی، جسمانی، سماجی، اور/یا روحانی بہبود کو متاثر کر سکتا ہے۔

پی ٹی ایس ڈی کو ماضی میں بہت سے مختلف ناموں سے جانا جاتا رہا ہے، جیسے پہلی جنگ عظیم کے سالوں کے دوران اسے “شیل شاک” اور دوسری جنگ عظیم کے بعد “جنگی تھکاوٹ” کے نام سے پکارا جاتا تھا، لیکن پی ٹی ایس ڈی صرف سابق فوجیوں کے ساتھ نہیں ہوتا۔ یہ تمام لوگوں کو چاہے وہ کسی بھی نسل، قومیت یا ثقافت یا عمر سے تعلق رکھتا ہو، لاحق ہوسکتا ہے۔

پی ٹی ایس ڈی والے لوگ اپنے تجربے سے متعلق شدید پریشان کن خیالات اور احساسات رکھتے ہیں، جو تکلیف دہ واقعے کے ختم ہونے کے بعد طویل عرصے تک قائم رہتے ہیں۔ وہ فلیش بیکس یا ڈراؤنے خوابوں کے ذریعے واقعے کو زندہ کرسکتے ہیں۔ وہ اداسی، خوف یا غصہ محسوس کر سکتے ہیں؛ اور وہ دوسرے لوگوں سے الگ تھلگ یا اجنبی محسوس کرسکتے ہیں۔ پی ٹی ایس ڈی والے لوگ ایسے حالات یا لوگوں سے بچ بچ کر رہ سکتے ہیں جو انہیں تکلیف دہ واقعے کی یاد دلاتے ہیں۔

اس امر کا سمجھنا انتہائی ضروری ہے کہ پی ٹی ایس ڈی ہو یا دوسرے جنگی ذہنی امراض، ضروری نہیں کہ وہ کسی واقعے اور حادثے کے فوری بعد ہی انسانی ذہن کو متاثر کردیں۔ جب ہمیں کسی سانحے یا حادثے کا سامنا ہوتا ہے تو، انسانی ذہن کی اولین ترجیح آپ کو زندہ رکھنا ہوتا ہے، وہ انسان کے “فائیٹ و فلائیٹ” ذہنی ترکیب متحرک کردیتا ہے، تاکہ آپ کا ذہن اس المناک سانحے کو بغیر “پروسس” کیئے جذب کرسکے، اور زندہ رہنے کیلئے آپکے حواس سالم رہیں تاکہ آپ اپنی حفاظت کرسکیں۔ اس لیئے یہ دیکھا جاسکتا ہے کہ بہت سے لوگ کسی اچانک حادثے، بری خبر یا المیئے کے بعد کچھ دیر خاموش اور ساکت پڑ جاتے ہیں لیکن اس حادثے کے اثرات کہیں نہیں جاتے اور نا ہی وہ زائل ہوتے ہیں بلکہ آپکا ذہن انہیں کسی کونے میں محفوظ کرلیتا ہے۔

لیکن جب وہ شخص، جنگی ماحول سے نکل کر قدرے پرسکون و پرامن ماحول میں داخل ہوجائے اور آسودگی، خوشحالی اور آسائش کی زندگی اختیار کرنے لگے تو اس وقت مرض بالغ ہوکر اپنی اصل روپ میں نمودار ہونے لگتا ہے۔ کیونکہ پھر انسانی ذہن یہ سمجھنے لگتا ہے کہ آپ اب جسمانی حوالے سے محفوظ ہو اور اس “ٹراما” کو “پروسس” کرسکتے ہو۔

مریض کو سمجھ نہیں آتا کہ میں کیا کروں، کہا جاوں، وہ کسی بھی جگہ مطمئن نہیں رہتا، ہر جگہ، ہر ماحول میں اکتاہٹ اور بے چینی کا شکار رہتا ہے۔

ایسے شخص کو ہمیشہ یہ لگتا ہے کہ وہ کہیں بھی محفوظ نہیں، جسمانی حوالے سے وہ شدید کاہلی کا شکار ہوجاتا ہے، عمومی طور پر ایسے اشخاص رات گئے دیر تک جاگتے رہتے ہیں اور پھر دوپہر تک سوتے ہیں، کیونکہ وہ رات کو خود کو لاشعوری طور پر محفوظ نہیں سمجھتے۔ انہیں ہمیشہ یہ خوف رہتا ہے کہ ہر کوئی انکے خلاف سازش رچا رہا ہے۔ اور اگر وہ کچھ سوچتا ہے تو منفی ہی سوچتا ہے اور منفی عمل کے بار بار مرتکب ہوتا ہے اور کبھی کبھار خود کو اکیلاپن اور گمنام سمجھ کر لوگوں کی توجہ حاصل کرنے کے لیے منفی و متضاد اور متنازع فعل کرنے سے بھی گریز نہیں کرتا، اچھے بھلے متحرک انسان، جو ماضی میں انتہائی قابل اور سرگرم ہوتے ہیں، وہ خود کیلئے ایک کمفرٹ زون تخلیق کرکے، وہیں خود کو مبحوس کردیتے ہیں۔

ایسے لوگوں میں یہ امکان بہت زیادہ پایا جاتا ہے کہ انہیں خودکشی کا خیال یا شراب، چرس افیون یا نشہ آور نیند کی گولیوں کی لَت لگ جائے۔ اگر ایسے شخص جنگی لوگ رہے ہیں، تو وہ بزدلی کا شکار ہوجاتے ہیں اور دوبارہ جنگی حالات سے گریز کرتے ہیں اور جنگ کی مخالفت کرتے ہیں۔ اگر وہ کبھی بھی دوبارہ جنگ میں حصہ بننے کی کوشش کرے وہ حصہ نہیں بن سکتے ہیں۔ اگر بن بھی جائے تو ان کی ماضی جیسی صلاحیت، ہمت، بہادری اور خطرہ مول لینے والی کردار نہیں ہوگی بلکہ وہ کسی بھی کام کو اول تو شروع نہیں کرسکتے اگر شروع کر لے پھر ادھورا چھوڑ دیتے، ان کو سمجھ ہی نہیں آتا میں کیا کروں اور کیا کرسکتا ہوں؟

ایسے لوگ اپنے لیئے ایک ایسا زہریلا کمفرٹ زون تخلیق کردیتے ہیں، جہاں انکی صلاحیتیں گھٹ گھٹ کر مرنا شروع کردیتے ہیں، اور یہ اسی کمفرٹ زون کے طفیل ہی ہوتا ہے کہ پی ٹی ایس ڈی ان پر اس شدید انداز میں حملہ آور ہوتا ہے۔ اسی کمفرٹ زون کے حوالے سے محمد ارشاد لکھتے ہیں کہ “ہماری اپنی انا تبدیلی کے خلاف ایک مضبوط مزاحمتی قوت ہے۔ دماغ جب ایک کمفرٹ زون بناتا ہے تو پھر لوگ اپنی پوری زندگی اس کمفرٹ زون یعنی جمود کی صورت حال میں رہنا پسند کرتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ لوگوں کا یہ گروپ ہمیشہ ایسے انسانوں سے نفرت کرتا ہے جو پہل کرتے ہیں۔ وہ اس کمفرٹ زون کو توڑنا چاہتے ہیں کیونکہ سست طبیعت لوگ اکثریت میں ہوتے ہیں، اس لئے وہ بہادر لوگوں کو ہدف بنانا کبھی نہیں بھولتے۔ پہل کرنے والے بہادر جو ہمیشہ خطرہ مول لیتے ہیں اور نئی کامیابیوں کے لیے جدوجہد جاری رکھتے ہیں۔

میسولینی اپنی آپ بیتی میں لکھتے ہیں مجھے اس وقت اس امر کا احساس تک نہ تھا کہ کام کے لیے مہلت کی بھی ضرورت ہوتی ہے، تھکان دور کرنے کے لیے آرام کرنا میرے لیے اس طرح لایعنی تھا جس طرح اب ہے۔

تو ذہنی سطح پر تغیر و تبدل کے بغیر زندگی مردہ اور بے معنی ہے۔ دماغ بھی پرانی، بے جان، جامد اور دہرائی جانے والی چیزوں کو پسند نہیں کرتا۔ مثلاً اگر ایک عام آدمی دن میں دو وقت ایک ہی کھانا کھائے تو تیسری بار دماغ وہ کھانا کھانے سے انکار کر دے گا۔ جو لوگ زندگی میں تبدیلی نہیں لاتے وہ دراصل بیمار اور ذہنی امراض کے مریض ہیں، اور بدقسمتی سے اسی گروہ سے متعلق لوگ صحیح اور غلط، ظلم اور مہربانی، محبت و نفرت میں فرق قائم نہیں کرسکتے ہیں۔”

ہم مذکورہ بالا تشریح و تاویلات کو پی ٹی ایس ڈی کے مد میں دیکھ سکتے ہیں، لیکن اسکے ساتھ ساتھ یہ امر بھی لحاظ خاطر ہو کہ آسائش و کمفرٹ زون کیسے متحرک جہدکاروں میں ذہنی امراض کے شدت میں اضافہ کرسکتے ہیں اور کیسے ایک قابل جہدکار بہانہ باز بن جاتا ہے۔ بقول بینجمین فرینکلن “جو بہانے بنانے میں اچھا ہوتا ہے، وہ کسی اور چیز میں اچھا نہیں ہوسکتا۔” اسی طرح معروف فرانسیسی مصنف وگٹر ہیوگو کہتا ہے کہ “مصیبت انسان بناتی ہے اور عیش و آرام راکشس بناتا ہے۔”

ایلن ہینڈرکسن جو ‘بوسٹن یونیورسٹی کے سنٹر فار انزائٹی اینڈ ریلیٹڈ ڈِس آرڈرز’ میں کلینیکل اسسٹنٹ پروفیسر ہیں، کا کہنا ہے کہ “جب ہم اپنے کسی کام یا بہت سے کاموں کو اپنے لیے خطرناک سمجھنا شروع کر دیتے ہیں، تو ایسے میں ہمارے دماغ میں ’’فائٹ، فلائیٹ یا فریز‘‘ کا احساس پیدا ہوتا ہے۔ ہمارا جسم بھی اس خطرے کے خلاف اسی انداز میں ردعمل دینا شروع کر دیتا ہے۔ بھلے یہ خطرہ خارجی ہو یا باطنی۔ جب ہمارے سامنے کاموں کی ایک طویل فہرست پڑی ہو تو یہ خطرہ ناکامی کے ممکنہ خطرے میں تبدیل ہو جاتا ہے یا پھر خطرے کا یہی احساس دوسروں کو مغلوب کرنے کے جنون میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ یہ خطرہ انسان کے احمق یا نااہل ہونے کے احساس میں بھی بدل جاتا ہے کیونکہ ہمیں یہ سمجھ ہی نہیں لگتی کہ کام کہاں سے شروع کریں یا اسے کیسے کریں؟‘‘۔

انزائٹی کے اس احساس کی موجودگی میں انسانی دماغ کا ایگزیکٹو سنٹر اپنا کنٹرول چھوڑ دیتا ہے۔ حالانکہ نفسیاتی امراض سب کے سب اور ان سب کے علامات اور وجوہات بالکل مختلف ہوتے ہوئے بھی ایک ہیں، وہ آپس میں قریبی رشتہ دار ہیں کیونکہ ان کا تعلق اور بنیاد انسانی ذہن سے ہے۔

دراصل قومی آزادی کی جنگ میں کمفرٹ زون قومی جہدکاروں کے لیے ایک ناسور مرض ہے، جس کی وجہ سے ایسے نفسیاتی امراض جنم لیتے ہیں، جوجہدوجہد کے لیے زہر قاتل بن جاتے ہیں۔ جو بھی تنظیم یا تحریک خود اگر اپنے ہی لوگوں کو کمفرٹ زون میں دھکیل دیتی ہے تو وہ لاشعوری بنیاد پر اپنے ہاتھوں سے اپنی تحریک کے پیروں پر کلہاڑی مارتی ہے۔

یہ بالکل ایک غیر انقلابی، غیر نظریاتی اور غیر تنظیمی سوچ و اپروچ ہے کہ جہدکاروں اور تحریکی لوگوں کو پرسکون و پر آسائش زندگی مہیا کرکے تنظیم بڑا کارنامہ سرانجام دے رہا ہے۔ جنگ ایک پرآسائش، پرسکون اور پرامن مستقبل کیلئے لڑی جاتی ہے، جنگ خود پرآسائش، پرسکون و پرامن نہیں ہوسکتا۔

اگر بلوچ تحریک پر ایک نظر دوڑائی جائے تو مذکورہ ذہنی الجھنیں، آپ کو محاذ پر برسرِپیکار کسی جہدکار میں نا ہونے کے برابر ملیں گے، لیکن وہ جہدکار جو محاذ کو ترک کرکے بیرون ممالک منتقل ہوگئے ہیں، ان میں ڈپریشن، انزائٹی اور پی ٹی ایس ڈی کی شدید شکایات پائی جاتی ہے۔

یہ بات اٹل ہے کہ عمل ہی تمام ذہنی الجھنوں و امراض کا ازالہ اور علاج ہے۔

جب امریکہ اور افغان طالبان کی دوحہ میں مذاکرات چل رہے تھے، تو امریکہ اور افغان حکومت کا یہی موقف تھا اور اس بات پر زور دے رہے تھے کہ طالبان چھ ماہ تک جنگ بندی کرے لیکن طالبان مکمل انکار کررہا تھا۔ مختلف رپورٹس کے مطابق طالبان قیادت اس وجہ سے جنگ بندی پر راضی نہیں تھا کہ ہمارے مجاہدین پھر آرام پسند بن جائینگے یا ہر کوئی ذاتی کام و کاج شروع کردیگا، پھر جنگ سے بیگانہ اور دور ہونگے۔

میریلن فرگوسن فرماتے ہیں کوئی بھی شخص کسی کو تبدیل ہونے پر مجبور نہیں کرسکتا، ہم سب کے اندر تبدیلی کا ایک دروازہ ہوتا ہے۔ جسے صرف اندر کی جانب کھولا جاسکتا ہے ہم دلیل اور جذباتی فیصلے سے کبھی کسی اور کا دروازہ نہیں کھول سکتے ہیں۔

‏‎ڈاکٹر ہینڈرکسن کہتے ہیں کہ “جب آپ اس کام سے گریز کرتے ہیں، جو آپ کے اندر بے چینی اور اضطراب پیدا کرتا ہے تو اس کی شدت میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے۔” وہ انہیں انزائٹی کے دو بڑے جھوٹ کہتے ہیں۔ پہلا جھوٹ یہ کہ وہ کام واقعی بہت مشکل اور خطرناک تھا اور دوسرا جھوٹ یہ کہ آپ اسے نہیں کرسکتے تھے۔ کامیابی کا حقیقی راز اس بات میں مضمر ہے کہ انزائٹی ہونے کے باوجود وہ کام کرگزرو اور اپنے دماغ کو یہ بات سمجھاو کہ وہ اس سے بھی زیادہ دباو میں کام کر سکتا ہے۔ ایسا کرنے سے نہ صرف یہ کہ آپ کا اعتماد بڑھتا ہے بلکہ آپ کے اندر ایسی اچھی اور عمدہ عادات پروان چڑھتی ہیں، جو آنے والے دنوں میں کام کرنے میں آپ کے لیے مفید ثابت ہوں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں