بلوچ نیشنل موومنٹ کے سیکریٹری جنرل دل مراد بلوچ نے شہدائے مرگاپ کی یاد میں منعقدہ ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا پاکستانی ریاست سمجھتی تھی کہ بلوچ رہنماؤں کی شہادت کے بعد بلوچ تحریک کمزور ہوگی لیکن یہ اس کی بھول تھی۔ بلوچ تحریک شہداء کی شہادت کے بعد بھی مسلسل پیشرفت کرتی رہی اور بی این ایم نے بھی ماضی کی نسبت اپنی سیاسی سرگرمیوں میں اضافہ کیا۔
انھوں نے یہ بات بی این ایم کیچ ھنکین کی طرف سے شہدائے مرگاپ کی یاد میں منعقدہ نشست سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔اس نشست کے مہمان خاص بی این ایم کے سیکریٹری جنرل دل مراد تھے۔
نشست کے آغاز میں مرگاپ کے شہیدوں کو خراج عقیدت پیش کیا گیا۔چیدگ بلوچ نے سانحہ مرگاپ کے بارے میں معلومات دیں۔
اپنے خطاب میں دل مراد نے کہا شہید چیئرمین اور ان کے ساتھی رول ماڈلز تھے۔موجودہ بلوچ تحریک اور پارٹی کی مضبوطی شہید واجہ غلام محمد کی جہد و فکر کی بدولت ہے۔
انھوں نے کہا چیئرمین غلام محمد نے ہمیشہ بی این ایم کے اداروں پر کام کیا اور بی این ایم کے ادارے مضبوط کیے۔ہم قومی تاریخ پر نظر دوڑائیں یہی نظر آتا ہے کہ اس وقت قومی فیصلے انفرادی طور پر کیے جا رہے تھے۔ قومی مفادات کو شخصی مفادات دبا دیتے ہیں لیکن قومی ادارے قومی فیصلے کرتے ہیں اور وہاں قومی مفادات کا تحفظ کیا جاتا ہے۔ بلوچ قوم کو واجہ غلام محمد نےقومی ادارے دینے کی سعی کی۔
ممبران کے سوالات کے جواب میں دل مراد بلوچ نے کہا پاکستانی ریاست نے بی این ایم اور دوسری آزادی پسند جماعتوں کے لیے زیرو ٹولیرنس کی پالیسی اپنا رکھی ہے۔اب بات یہاں تک آ گئی ہے کہ بلوچ خواتین اور بچوں کو نقصان پہنچا رہی ہے۔ لیکن ریاست اس بات کو سمجھ لے کہ بلوچ نے اپنے راستے کا انتخاب کیا ہے اور شہید غلام محمد کے دکھائے گئے راستے پر رواں ہے۔ وہ دن دور نہیں بلوچ آزادی کے دن کو دیکھے گا۔
اتحاد کے بارے میں پوچھے گئے سوال پر انھوں نے کہا جیسا کہ چیئرمین خلیل نے کہا تھا ’’ اتحاد بلوچ قوم کے لیے 21ویں صدی میں ایک تحفہ سمجھا جاتا ہے۔ ‘‘ بی این ایم آج بھی آزادی پسند پارٹیوں کے ساتھ اتحاد اور شراکت عمل کے لیے کوشش کر رہی ہے۔اس میں ہمیں کہاں تک کامیابی اور ناکامی ملتی ہے، آنے والا دن ہی اسے واضح کرے گا۔
نشست سے شہید سلیمان سیل تربت کی رابطہ کار شلی نے موجودہ تحریک کی تاریخ سے اپنی بات کا آغاز کیا اور بلوچ تحریک کے اتار چڑھاؤ پر بات کی۔ انھوں نے کہا تحریک کا تسلسل قائم ہے۔ چیئرمین غلام محمد ، واجہ خیربخش مری اور شہید اکبرخان بگٹی کی قیادت میں شروع ہونے والی تحریک کو روکنے کے لیے ریاست نے مختلف پالیسیاں اپنائیں لیکن قومی آواز کو دبایا نہیں جاسکا۔ ریاست کے جبر کے باوجود بی این ایم کا استحکام اس بات کو عیاں کرتا ہے کہ شہید غلام محمد اور اس کے دوست موجود نہیں لیکن ان کے فکر و نظریہ ہر جہدکار کے ذہن میں موجود اور زندہ ہیں ۔مضبوط بی این ایم شہید غلام محمد اور ان کے فکری ساتھیوں کا تحفہ ہے۔
شلی نے مزید کہا یہ ایک سچائی ہے کہ شہید رہنماؤں کی جگہ کوئی نہ لے سکتا۔ شہداء کی شہادتیں تحریک کے لیے بڑا نقصان ہے لیکن ان کا دکھایا گیا رستہ خود ہماری رہنمائی کر رہا ہے۔
نشست کے آخر میں دل مراد بلوچ نے ممبران کے سوالات کے جوابات دیے۔