مرگاپ واقعہ: بلوچ رہنماؤں کے قتل کے چودہ سال
ٹی بی پی اداریہ
چودہ سال پہلے تین اپریل دو ہزار نو کو تربت میں بلوچستان اسمبلی کے سابق اپوزیشن لیڈر کچکول علی ایڈوکیٹ کے چیمبر سے بلوچ نیشنل موومنٹ کے چیئرمین غلام محمد بلوچ، بی این ایم رہنماء لالا منیر بلوچ اور بلوچ ریپبلکن پارٹی کے ڈپٹی سیکٹری جنرل شیر محمد بلوچ کو جبری گمشدہ کیا گیا اور نو اپریل کو تربت سے چند کلومیٹر دور مرگاپ کے مقام سے اُن کی مسخ شدہ لاشیں ملیں۔
پیپلز پارٹی کی دور حکمرانی میں بلوچ رہنماؤں کے جبری گمشدگی اور قتل کے ساتھ ہی آزادی کے جدوجہد سے وابستہ رہنماؤں ؤ کارکنان کی جبری گمشدگیوں کا سلسلہ شروع ہوا اور بعد میں اُن کی مسخ شدہ لاشیں ویرانوں و سڑک کناروں سے ملنے لگیں۔ پاکستان میں حکومتیں بدلتے رہے لیکن بلوچستان کے حالات میں بہتری کے بجائے ابتری آتی گئی اور بلوچ آزادی کی تحریک سے وابستہ سیاسی پارٹیوں اور اداروں کی سرگرمیوں پر جبراً قدغن لگا، جس کا تسلسل اب بھی مختلف شکلوں میں جاری ہے۔
پاکستان میں سیاسی جماعتیں اپوزیشن میں ہوتے ہیں تو بلوچ آزادی کی جدوجہد سے وابستہ اداروں سے مزاکرات کا عندیہ دیتے ہیں اور بلوچ قوم پر ہوئے ظلم و زیادتی کا اقرار کرتے ہیں۔
دو ہزار آٹھ کو پیپلز پارٹی نے اقتدار حاصل کرنے سے پہلے بلوچستان میں اکبر خان بگٹی و سینکڑوں بلوچوں کے قتل، ڈیرہ بگٹی اور کوہستان مری میں فوجی آپریشن و ہزاروں لوگوں کے جبری گمشدگی کو جنرل پرویز مشرف کی سربراہی میں فوجی آمریت سے منسوب کیا تھا۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما بلوچستان میں مفاہمت کا آغاز کرنے کا اظہار کرتے تھے اور آغاز حقوق بلوچستان پیکج کا اعلان کرکے کہا گیا کہ بلوچستان کے عوام کو آئینی، سیاسی اور معاشی حقوق میسر ہوں گے، پیپلز پارٹی کے دور میں بلوچوں کو حقوق میسر نہ ہوسکے لیکن بلوچ رہنماؤں کے قتل اور سیاسی کارکنان کی جبری گمشدگیوں کے بعد مسخ شدہ لاشوں کے ملنے کا سلسلہ اُنہی کے دور حکومت میں شروع ہوا جو تحریک انصاف اور مسلم لیگ کے دور حکومت میں بھی رکنے کا نام نہیں لے رہا ہے۔
پاکستان کی مختلف حکومتیں اور اسٹبلشمنٹ بلوچ قوم سے مفاہمت کا اظہار تسلسل سے کررہے ہیں لیکن بلوچ رہنماؤں کے قتل و جبری گمشدگیوں اور بلوچستان میں سیاست پر قدغن لگانے سے وہ مفاہمت کے راستوں کو مسدود کررہے ہیں۔ پاکستان کے برسراقتدار قوتوں کو اب سمجھنا چاہیے کہ وہ بزور قوت یا جبر بلوچ قومی آزادی کی تحریک کو ختم نہیں کر سکتے اور انہیں سنجیدگی سے بلوچ مسئلہ کو حل کرنے کے لئے مزاکرات کرنے ہونگے۔