حقیقی جدوجہد اور مقصد کا حصول
تحریر: حکیم واڈیلہ
دی بلوچستان پوسٹ
آئرش انقلابی رہنما مائیکل کولنز کہتے ہیں آئرلینڈ پر بہت سے طاقتوں نے قبضہ کرنے کی کوشش کی لیکن آئرش سماج، انکے تہذیب، زبان اور طرز زندگی کی وجہ سے اکثر بیرونی طاقتیں آئرلینڈ پر مکمل قبضہ جمانے سے قاصر رہے اور بعض اوقات تو وہ خود آئرش تہذیب کا حصہ بنکر رہنے لگے۔ البتہ جب انگریزوں نے آئرلینڈ پر قبضہ کیا تو انہوں نے زر، زمین پر قبضہ کرکے اپنے قبضہ کو مزید طول بخشنے کیلئے آئرش سماج، آئرش زبان، آئرش تہذیب، رہن سہن، گھر بار یہاں تک کہ زندگی گزارنے کے طریقوں میں انگریزی رنگ کو اس طرح سے گھولنے کی کوشش کی کہ اب آئرش سماج اگرچہ برطانوی اجتماعیت سے تو آزاد ہوچکا ہے مگر انہیں اپنی تہذیب، اپنی زبان اور اپنے گائلک زندگی میں واپس جانے کی خاطر انتہائی اقدام اٹھانے اور جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے۔
آئرلینڈ کی تاریخ انکے جدوجہد اور ان پر مسلط طاقت کے حوالے سے مطالعہ کیا جائے تو یہ دیکھنے کو ملتا ہے وہ تمام مظالم جو بلوچستان میں برپا ہیں وہ تاریخی اعتبار سے دنیا کی دیگر مقبوضہ اقوام پر ہونے والی مظالم سے یکسانیت دیکھنے کو ملتی ہیں۔ پھر وہ یکسانیت ظالم کی بربریت کے صورت میں ہو، یا مظلوم کے مزاحمت کی۔ آج بلوچستان جس صورتحال سے دوچار ہے آئرلینڈ ایسے ہی صورتحال سے اٹھارویں اور انیسویں صدی میں دوچار تھا۔
بلوچستان جو کبھی تاریخی حوالے سے بلوچوں کا گھر انکی سرزمین اور مادر وطن تھی، آج بس سانحات اور واقعات کی سرزمین بن چکا ہے۔ بلوچستان میں ایسے دلخراش اور انسانیت کو دہلانے والے واقعات روزانہ کی بنیاد پر ہوتے ہیں جنکو ثبوت بناکر دنیا پاکستانی ریاست کیخلاف انتہائی اقدام اٹھاسکتی ہے لیکن ایسا ہوتا ممکن دکھائی نہیں دیتا۔
بلوچستان سے ملنے والی اجتماعی قبریں ہوں، زیارت کا واقعہ ہو، یا جبری گمشدگیاں اور ماورائے عدالت قتل کے واقعات ہوں یہ تمام ایسے واقعات ہیں جو پاکستانی ریاست کے بربریت کو آشنا کرانے کیلئے کافی ہیں۔
پاکستانی ریاست کی بربریت کی شروعات کہاں سے ہوئی؟
آج سے سات دہائی قبل جب پاکستان نے بلوچستان کو اپنی کالونی بنانے کی جستجو میں ریاست قلات پر حملہ کیا اور بلوچستان کو زبردستی الحاق کرواکر اپنا صوبہ منوایا اس روز سے ہی بلوچ اور پاکستان ایک دوسرے کے دشمن بن گئے۔ ( اس حملے اور جبری الحاق میں بلوچستان سے غداری کرنے والے سردار، نواب، میر، علاقائی معتبر اور دیگر سفید ریش بھی شامل تھے)۔
ستائیس مارچ انیس سو اڑتالیس سے لیکر آج مارچ دو ہزار تئیس تک بلوچستان اور پاکستان کا معمہ ویسے کا ویسا ہی ہے۔ ایک ایسی گھتی جو سلجھتی ہی نہیں۔ ایک ایسا سوال جسکا جواب معلوم ہونے کے باوجود بھی مل نہیں پارہا۔ ستائس مارچ کو شروع ہونے والی بربریت کا سامنا مختلف ادوار میں بلوچوں کے مختلف قبائل اور سرداروں نے کیا، جن میں آغا عبدالکریم، شہید نواب بابو نوروز خان، مرحوم سردار عطا اللہ مینگل، مرحوم نواب خیر بخش مری، شہید نواب اکبر خان بگٹی اور شہید بالاچ خان کچھ ایسے نام ہیں جنہوں نے مزاحمتی جدوجہد سے پاکستان اور بلوچستان کے درمیان کے رشتے قابض اور مقبوضہ، حاکم و محکوم، ظالم و مظلوم، مقامی و غیر مقامی کے فرق کو واضح طور پر زندہ رکھا۔
پاکستانی بربریت کا سب سے طویل دور موجودہ ہے جس کی شروعات نوئے کی دہائی کے اختتام سے ہوا اور پھر آہستہ آہستہ بڑھتا چلاگیا اور اب ظلم و بربریت اپنی انتہاء کو پہنچ چکا ہے۔
پاکستانی ریاست کے مطابق وہ اپنی رِٹ قائم کرنے اور ملک دشمن عناصروں کیخلاف کاروائی کرتی ہے جنہیں پاکستانی ریاست کے بقول ہندوستان، افغانستان، ایران اور اسرائیل کی کمک و سرپرستی حاصل ہے اور ایسے تمام افراد کو ریاست گزشتہ سات دہائیوں سے مٹھی بھر عناصر قرار دیتی آرہی ہے جنہیں ریاست کے بقول بلوچستان کے حالات خراب کرنے کی اجازت نہیں دی جائیگی۔ ریاستی بیانیہ ہمیشہ ہی الزام تراشی، دروغ گوئی اور مظلوم مخالف ہی ہوتی ہے، قبضہ گیر سے یہ امید اور توقع ہی نہیں کی جاسکتی کہ وہ محکوم کے حق میں بولیں۔
لیکن ریاستی پالیسی اور بیانیہ حقائق کو مسخ کرنے کی ایک ایسی ناکام اور بدترین کوشش ہوتی ہے جیسا کہ سورج کو انگلی سے چھپانے کی کوشش ہو۔ بلوچ بلوچستان کے حقیقی فرزند ہیں، بلوچوں کی زبانیں، انکی تہذیب، رہن سہن، یہاں تک زندگی گزارنے کے آداب بھی پاکستانی (پنجابی) ریاست سے یکسر مختلف ہیں۔ اور بلوچوں کی جدوجہد کی بنیاد انکی قومیت، قومی شناخت، انکی زبان، تہذیب، اور آزادی کو حاصل کرنا ہے۔ بلوچوں کے جدوجہد کی بنیاد بہت واضح اور شفاف تھی اور اب بھی شفافیت ہی اسکی بہترین پہچان ہے۔ اور وہ یہ کہ بلوچوں کی سرزمین پر پاکستان قابض ہے اور پاکستانی قبضہ گیریت کیخلاف بلوچ ان تمام اقدامات کو بروئے کار لائینگے جو بلوچوں کو انکی آزادی سے قریب تر کرتی ہوں۔
اس ضمن میں بلوچوں نے سیاسی مزاحمت کی، پارلیمانی سیاست کی، طلباء سیاست کی، غیر پارلیمانی سیاسی مزاحمت کی، مسلح جدوجہد کی راہ کو اپنایا اور آج بھی بلوچوں کے پاس موجود موثر جدوجہد کے زرائع میں سے ایک مسلح جدوجہد ہے اور دوسرا ریاست سے قطع تعلق ہوکر سیاسی مزاحمت کرنا ہے۔ ریاستی ظلم و جبر، قتل و غارت، بلوچوں کے گاؤں دیہاتوں کو جلانے، انہیں لاپتہ کرنے اور مسخ لاشیں پھینکنے کی پالیسیاں جب ناکام ہوئیں تو ریاست نے اپنی پالیسیوں میں ِنت نئے ترکیب کا استعمال کرنا شروع کردیا جس میں بلوچوں کی قومی شناخت کی جدوجہد میں لبرلزم، مساوات، برابری، سرداریت کیخلاف محاذ کھولنے یا پھر ایسے مسائل کو اولیت کا درجہ دلوانے کی کوشش کی گئی جو درحقیقت بلوچستان کے حقیقی بنیادی مسئلے کو گمنام کرنے اور لوگوں کو اس حقائق سے گمراہ کرنے کی کوشش ہے کہ بلوچوں پر جاری بربریت کا براہ راست ذمہ دار پاکستانی ریاست ہے۔
بلوچ عوام، انکی آزادی، انکے قومیت، انکے زبانوں اور عقیدوں پر حملہ آور ہونے والا بندوق بردار کسی ڈیتھ سکواڈ کا سرغنہ ہو، مزہبی جتھے کا سرغنہ ہو، سرداریت کا دعویدار ہو ان سب ہی کو طاقت فراہم کرنے والا ایک ہی ذریعہ ہے اور وہ ہے ریاست پاکستان جس کا بنیادی مقصد بلوچوں کو ایسے مسائل میں الجھانے کی کوشش ہے جس میں الجھ کر وہ اہم اور حقیقی مسائل کو بھول کر آپسی چپقلش کا شکار ہوں اور بلوچوں کے اجتماعی جدوجہد کو انفرادی ءُ گروہی مسائل بناکر پیش کیا جائے، اور دنیا کو یہ باور کرایا جائے کہ بلوچستان میں ریاستی جبر و ظلم کیخلاف بغاوت اور مزاحمت حقیقت میں آپسی چپقلش ہے۔
بلوچستان میں جاری جدوجہد کا مقصد نظام کی تبدیلی نہیں، بلکہ اس بوسیدہ نظام سے چھٹکارہ حاصل کرنا ہے بلوچوں کو اس سے کوئی سروکار نہیں پنجاب میں حکومت کس طرز کی ہوتی ہے وہاں جمہوریت پنپتی ہے یا وہاں کوئی فوجی جرنیل پاکستانی سیاسی جماعتوں کو اپنے اشاروں پر نچاتا ہے نا ہی بلوچ قومی سوال کا جواب اس فرسودہ نعرے میں ہے کہ ریاست اور عوام کے درمیان آئین ایک رشتہ ہے اور بلوچوں کو برابری کی شہریت اور حقوق دیے جائیں۔ در حقیقت، یہ تمام وہ نعرے ہیں جنہیں پیش ہی اسی لئے کیا گیا تاکہ بلوچوں کے جدوجہد میں کنفیوزن پیدا کیا جائے، بلوچوں کو یہ باور کرانے کی کوشش کی گئی آپ پُر امن جدوجہد کریں ہم آپ کا ساتھ دینگے آپ پی ٹی ایم طرز آواز اٹھائیں ہم آپ کا ساتھ دینگے، آپ مسلح جدوجہد سے دوری اختیار کرلیں ہم آپکو حقوق دلانے کی بھرپور کوشش کرینگے۔ یہ نعرے سرکاری نہیں بلکہ ان نام نہاد سول سوسائٹی، انسانی حقوق کے علمبرداروں اور صحافیوں اور خود کو اسٹیبلشمنٹ اور فوجی حاکمیت کے ناقد کہتے ہیں اور جمہوریت اور انسانی برابری پر بھروسہ رکھنے والا کہتے ہیں۔ لیکن انسانیت کی برابری پر بھروسہ رکھنے والوں کی اصلیت اس وقت آشکار ہوجاتی ہے جب انکے من پسند سیاسی جماعتوں کی حکومت آتی ہے اور پھر انکا لب و لہجا بلکل ویسا ہی ہوجاتا ہے جیسا کہ ایک فوجی ترجمان کا ہو۔
اب ایک پاکستانی چاہے وہ لبرل، صحافی، انسانی حقوق کا علمبردار یا فوج کا ناقد ہی کیوں نہ ہو وہ بلوچستان کے حقیقی مسائل پر بلوچوں کا ہمدرد ہو نہیں سکتا کیونکہ کہیں نہ کہیں حُب الوطنی اور پنجاب کی بالادستی اور آسائشات انہیں محکوم کا حقیقی ہمدرد بننے نہیں دیتا البتہ جب تک وہ محکوم کے ساتھ کھڑے ہونے کا ڈھونگ کرتے ہیں۔ اس دوران وہ بلوچوں پر اپنی سوچ کو تھوپنے کی کوشش کرتے ہیں وہ محکوم یہ بتانے کی کوشش کرتے ہیں کہ آپ کا مسئلہ قومی غلامی نہیں، سماجی بدلاؤ ہے۔ آپ کا مسئلہ یہ ہے کہ بلوچوں کے روایات، انکے تہذیب انکا زندگی گزارنے کا طریقہ زائد المعیاد ہوچکا ہے اور اب انہیں اسلام آباد سے سیکھنے کی ضرورت ہے، اور پھر وہ ایک غلام کو اپنے جیسا بنانے کی کوشش کرتے ہیں اور اس کوشش میں کبھی کبھی انہیں کامیابی بھی مل جاتی ہے، جس کا شکار افراد پھر نہ صرف اپنے آپ سے اپنی قومی جدوجہد سے راہ فراریت اختیار کرتے ہیں بلکہ وہ غیر ضروری مسائل غیر اہم موضوعات اور مخصوص واقعات پر اپنی قوم، قومی تاریخ، تحریک اور اپنی شناخت کو ہی پسماندہ اور بوسیدہ قرار دیکر اپنی ذہنی پسماندگی کا اظہار کرتے ہیں۔
حرف آخر
بلوچستان جو گزشتہ سات دہائیوں سے مسلسل انسانیت سوز مظالم کا سامنا کرتا رہا ہے۔ بلوچستان پر ظلم کرنے والا ہر ایک شخص، گروہ اور ادارے کے حوالے سے اگر مکمل تحقیقات کی جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ وہ شخص، گروہ اور ادارہ براہ راست پاکستانی ریاست اور فوجی اسٹیبلشمنٹ کا پیدا کردہ ہے۔ جب دشمن واضح ہے۔ اسکی پالیسیاں واضح ہیں، اسکے جرائم کی داستان اور تاریخ واضح ہیں، تو پھر بحیثیت ایک قوم اور قومی جدوجہد کے نمائندہ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ ہمیں اپنی جدوجہد کا محور کہاں پر کرنا چاہئے۔ حقیقی بلوچ قومی جدوجہد جس کا مقصد بلوچ سرزمین کی مکمل آزادی ہے اس حوالے سے بلوچ قومی جماعتوں کو نہ صرف ایک جامع حکمت عملی مرتب دینے کی ضرورت ہے بلکہ انہیں فردی، گروہی مفادات سے بالاتر ہوکر، ذاتی پسند ناپسند سے بالاتر ہوکر، صرف واقعات کا انتظار کر پھر ان واقعات کیخلاف احتجاج کرنے کے بجائے ان واقعات کی روک تھام ان واقعات کی تحقیقات کرنے اور پھر قومی آزادی کے حوالے ایک ایسے پالیسی مرتب دینے کی ضرورت ہے جو ایک گروہ کی آزادی سے زیادہ مکمل قومی آزادی کا پرچار کرتی ہو۔ بلوچ سماجی پیچیدگیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ایسے پالیسی مرتب دینے ازحد ضرورت ہے جو بلوچ قوم کے ہر ایک طبقہ کی نمائندگی کرتا ہو اور انہیں قومیت کی جانب راغب کرنے کا موجب بنے اور ریاستی دروغ گوئی اور جھوٹ کا منہ توڑ جواب بھی ہو۔ تب کہیں جاکر بلوچ قومی جدوجہد اپنی حقیقی اپنی شکل میں بہتر طریقے سے آگے بڑھ سکے گی۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں