تربت سول سوسائٹی کے زیر اہتمام رشیدہ زہری اور ان کے شوہر رحیم زہری کی جبری اغواء کے خلاف اتوار کے روز تربت پریس کلب کے سامنے مظاہرہ کیا گیا جس میں سیاسی کارکنوں اور سماجی شخصیات نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔
مظاہرین نے رشیدہ زہری اور ان کے شوہر کی جبری اغواء کے خلاف نعرہ بازی کی اور ان کی فوری بازیابی کے لیے انسانی حقوق کی تنظیموں اور عدلیہ سے اقدامات اٹھانے کا مطالبہ کیا۔
شرکا سے خطاب کرتے ہوتے تربت سول سوسائٹی کے کنوینر گلزار دوست نے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے ریاستی جبری بلوچوں کے خلاف جاری ہے بلوچوں کو اٹھا کر جبری گمشدگی کا شکار بنانا اب روز کا معمول بن چکا ہے جو پچھلے کئی دہائیوں سے جاری ہے۔
انہوں نے گذشتہ شب تربت میں ڈاکٹر واحد بخش کے گھر پر چھاپہ مارکر کو خواتین و بچوں کو شدید تشدد کا بناکر بلوچ چادر و چاردیواری کی تقدس کو پامال کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ ریاستی پالیسی بلوچ کو اپنے سرزمین پہ زندہ رکھنا نہیں چاہتے ہیں بلکہ ریاست کو بلوچوں کی ساحل وسائل چاہیے بلوچ نہیں۔
انہوں نے کہا کہ پہلے بلوچ مردوں جبری گمشدگی کا شکار بناکر نامعلوم مقام منتقل کردیا جاتا تھا اب کمسن بچوں اور خواتین کو نشانہ بنا رہے ہیں۔
مظاہرہ سے خطاب کرتے ہوئے مقررین نے کہاکہ بلوچستان میں سیاسی کارکنوں اور طلبہ کی جبری اغواء ایک تسلسل کے ساتھ گزشتہ کئی سالوں سے جاری ہے اس میں اب شدت لاتے ہوئے عورتوں کی جبری گمشدگی کا تاریک ترین دور کا آغاز کیا گیا ہے، یہ عمل بلوچ حمیت اور صدیوں سے بلوچ معاشرہ میں تقدس کے حامل روایات پر براہ راست یلغار ہے۔
انہوں نے کہا کہ بلوچ سماج میں زمانہ قدیم سے آج تک عورت کو عزت اور شرف حاصل ہے لیکن اب فورسز بلوچ تقدیس پر ہاتھ ڈال کر معاشرے کے حساس روایات پر حملہ آور ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ جان بوجھ کر سوسائٹی کو اشتعال دلایا جارہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ بلوچوں نے ہر وقت اپنے خواتین و بچوں کی تحفظ کی ہے اب ریاست انہیں جبری گمشدگی کا شکار بنارہا ہے اب ہمارے وجود کا سوال ہے یہ ریاستی پالیسی ریاست کے لئے کسی صورت بہتر نہیں نکلے گا۔
انہوں نے کہا کہ فورسز اور زمہ دار ادارے اشتعال انگیزی سے گریز کرکے نوجوانوں کو جان بوجھ کر منافرت کی جانب نہ دھکلیں کیوں کہ بلوچستان گزشتہ کئی سالوں سے سے فورسز کی اشتعال کا شکار ہے اور ایک ایسی آگ لگائی گئی ہے جس کے بجھنے کا کوئی آثار نظر نہیں آرہا۔