حفیظ زہری کے گمشدگی کی کوشش، بلوچ یکجہتی کمیٹی کا احتجاج

333

بلوچ یکجہتی کمیٹی کی جانب سے کوئٹہ پریس کلب کے سامنے کراچی سے خفیہ اداروں کی جانب سے عبدالحفیظ زہری کے عدالت سے بری ہونے کے باجود جبری گمشدگیوں کی کوشش اور خواتین پر تشدد کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔

کوئٹہ مظاہرے میں بلوچ لاپتہ افراد کے لواحقین، طلباء و سیاسی کارکنان نے بڑی تعداد میں شرکت کی-

مظاہرین نے واقعے کو بلوچ عوام کے خلاف دن دہاڑے ریاستی جبر قرار دیا۔ احتجاج میں شریک افراد نے عبدالحفیظ کی جان سلامتی اور حفاظت کا مطالبے کیلئے نعرے بازی کی اور حملے کے خلاف آواز بلند کیا گیا۔

مظاہرین نے کہا کہ عبدالحفیظ زہری کو گذشتہ سال متحدہ عرب امارات سے جبری طور پر لاپتہ کیا گیا تھا اور بعدازاں غیر قانونی طور پاکستان منتقل کیا گیا جہاں انہیں لاپتہ رکھنے کے بعد مختلف الزامات لگاکر منظر عام پر لایا گیا لیکن عدالت میں بے قصور ثابت ہونے پر رہائی کے بعد پھر سے جبری طور پر لاپتہ کرنے کی کوشش کی گئی۔

مقررین نے احتجاج سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کسی بھی مہذب ریاست میں عدالتوں کے فیصلے اٹل اور آخری فیصلے ہوتے ہیں مگر پاکستان میں شہری حقوق کے معاملے میں اور خاص کر بلوچستان کے حوالے سے شہری حقوق مکمل طور پر سلب کیے گئے ہیں اور عدالتی احکامات کو بھی مکمل طور پر رد کیا جاتا ہے۔

“عبدالحفیظ زہری کو گزشتہ سال دبئی سے غیر قانونی طور پر پاکستان ڈی پورٹ کیا گیا جنہیں دو سال تک مکمل طور پر لاپتہ کیا گیا اور جب سندھ ہائی کورٹ سے عبدالحفیظ کی بے گناہی ثابت ہوئی اور انہیں رہائی ملی تو سیکورٹی اداروں کے اہلکاروں نے رہائی کے فوری بعد انہیں اور ان کے خاندان والوں کو سرعام نشانہ بنایا، ان پر فائرنگ کی گئی ، خواتین کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور انہیں دوبارہ جبر ی طور پر لاپتہ کرنے کی کوشش کی گئی جسے لواحقین نے بڑی مشکل سے ناکام بنایا مگر اب بھی خاندان کو اس بات کا خوف ہے کہ عبدالحفیظ کو غیر قانونی طور پر واپس جبری طور پر لاپتہ کیا جائے گا ۔

انہوں نے کہا کہ عبدالحفیظ زہری کے اغواء کی کوشش کے واقعے کے مخلتف وڈیو بھی وائرل ہیں جہاں سفید گاڑی میں سوار مسلح شخص سنڑل جیل کے سامنے بلوچی لباس میں زیب تن خواتین اور بچوں سے مڈبھیڑ ہیں اور ان پر تشدد کرتے ہوئے فائرنگ کی آواز آرہی ہے اس تمام واقعہ میں کراچی سینٹرل جیل کے سپریڈنٹ پولیس براہ راست ملوث تھے اور حفیظ زہری کے جان کو پاکستان میں اب بھی شدید خطرات لاحق ہیں۔

انہوں نے کہا کہ یہ افسوس کی بات ہے کہ سیکورٹی اداروں نے سندھ ہائی کورٹ کے احکامات کی مکمل طور پر خلاف ورزی کرتے ہوئے عبدالحفیظ پر حملہ آور ہوئے اور اس سے بڑے المیے کی بات یہ ہے کہ اب تک سندھ حکومت اور سندھ ہائی کورٹ اس ظلم اور ناانصافی کی انتہا پر مکمل طور پر خاموش ہیں اور اس غیر قانونی کارروائی میں شامل کسی بھی افسر سے کوئی بھی جواب طلبی نہیں کی جا رہی ہے۔ اس سے سندھ حکومت اور سندھ ہائی کورٹ بلوچوں کو یہ باور کرانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ سندھ میں بلوچوں کے کوئی بھی حقوق محفوظ نہیں اور اگر عدالت بھی بلوچ عوام کو حقوق دینے میں ناکام رہتے ہیں تو بلوچ اس ریاست میں اپنے حقوق کیلئے کون سا دروازہ کٹکٹائیں۔

مظاہرین نے عالمی انسانی حقوق کے اداروں سے اپیل کی کہ وہ اس معاملے میں خود ملوث ہوکر حفیظ زہری اور انکے خاندان کی تحفظ کو یقینی بنائے اور اس غنڈہ گردی پر ریاست پاکستان سے سوال کرے کہ کیسے بلوچوں کو دن دھاڑے اُٹھا کر لاپتہ کیا جارہا ہے۔