ہماری کون سنے گا
تحریر: ماہرنگ اعظم بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کا طویل سلسلہ آج بھی جاری ہے،نوجوان ،بچے، بوڑھے ،عورتیں اس جبری گمشدگی سے محفوظ نہیں.کمیٹیاں بنتی ہیں،کمیشن تشکیل دئیے جاتے ہیں لیکن نہ لاپتہ افراد بازیاب ہوتے ہیں اور نہ ہی جبری گمشدگان کے خاندان کو دھمکیاں ملنا بند ہوتی ہے. یہ سلسلہ پندرہ سالوں سے جاری ہے اور اب تو پوری شدت کے ساتھ کراچی میں بھی جبری گمشدگان کے خاندان کے ساتھ ریاست پاکستان کے عسکری اور سول اداروں کا ناروا سلوک جاری و ساری ہے.
متحدہ عرب امارات سے گرفتار عبدالحفیظ زہری کو گرفتار کرکے پاکستانی حکام کے حوالے کیا گیا جہاں انہیں تفتیش کے نام پر تشدد کرکے سینٹرل جیل منتقل کیا گیا۔ ایک سال کے بعد جب ان کی رہائی کا وقت آیا تو سپرنٹنڈنٹ سینٹرل جیل کراچی نے انہیں خفیہ اداروں کے اہلکاروں کے حوالے کرنے کی کوشش کی، اس غیر قانونی عمل کے خلاف عبدالحفیظ زہری کے خاندان کے افراد نے مزاحمت کی تو انہیں شدید تشدد کا نشانہ بنایا گیا،عبدالحفیظ زہری اور ان کے بھائی پر فائرنگ کی گئی جس کی وجہ سے دونوں بھائی شدید زخمی ہیں جبکہ فاطمہ حمید اور سیعدہ حمید کو بھی تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور دھمکی دی گئی کہ ہم آپ لوگوں کو نہیں چھوڑینگے اور عبدالحفیظ زہری کو دوبارہ اٹھالیں گے.
یہ سلوک وہاں کیا گیا جہاں کے حکمرانوں کا نعرہ ہے کہ جمہوریت ہی بہترین انتقام ہے یہ کونسی جمہوریت ہے کہ ایک بے گناہ شخص کو تشدد کے بعد سینٹرل جیل منتقل کیا جائے اور قانونی تقاضوں کے مطابق رہا ہونے کے بعد دوبارہ انہیں اٹھانے کی کوشش کی جائے اور سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ان سب واقعات کے بعد خاموشی اختیار کی جائے.
ریاست کے اعمال سے ظاہر ہوتا ہے کہ ریاست کے ادارے اور محکمے بلوچ قوم کے دشمن ہیں اور بلوچ قوم کے معاملے پر یہ تمام ادارے اور محکمے متفق ہیں.سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم اپنی فریاد کہاں لے کر جائیں ؟ہماری فریاد کون سنے گا؟یہاں عدالتوں سے لے کر کمیشنوں تک اور کمیٹیوں سے لے کر تھانوں میں ،پارلیمنٹ سے لے کر ٹارچر سیلوں میں ایک ہی سوچ رکھنے والے لوگ بیٹھے ہوئے ہیں.
جس طرح میری بھائی شعیب بلوچ کو بے گناہ ہونے کے باوجود تین مختلف کیسز میں پھنسایا گیا اسی طرح زہری فیملی کے خاندان کے افراد پر جعلی کیسز بنا کر انہیں ذہنی تشدد کا نشانہ بنایا جارہا ہے .
کوئی باشعور فرد ایک منٹ تصور کریں کہ ایک خاندان کے افراد کے لوگوں کو شہید کیا گیا،انہیں ٹارچر سیلوں میں رکھا گیا لیکن جب انہیں ان کا قانون رہا کردیتا ہے تو خفیہ ادارے ایک مرتبہ پھر اغوا کرنے کی کوشش میں خاندان کے عورتوں اور بچوں پر تشدد کرتے ہیں .ان لوگوں پر کیا گزر رہی ہے ان کا حال خدا جانتا ہے اگر یہ صورتحال آپ کے ساتھ ہو تو آپکی حالت کیا ہوگی.
میں جبری گمشدگی سے متاثر شعیب بلوچ کی بہن اس درد کو محسوس کرسکتی ہوں جو درد آج لاپتہ افراد کے خاندان اور فاطمہ حمید اور سعیدہ حمید اور فریدہ بلوچ محسوس کررہے ہیں.
میں نہ صرف تمام بلوچوں سے درخواست کرتی ہوں کہ اس ظلم کے خلاف متحد ہوں بلکہ تمام مظلوم قوموں سے درخواست کرتی ہوں کہ وہ متحد ہو کر باآواز بلند اپنا احتجاج ریکارڈ کرائیں اگر ہم ایک دوسری کی آواز نہ بن کر اس ظلم کو روکنے کی کوشش نہیں کی تو کوئی بھی محفوظ نہیں رہے گا.یہ ادارے اور محکمے تمام افراد کو لاپتہ کریں گے اس لئے آج فاطمہ حمید اور سعیدہ حمید کی آواز بنیں.
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں