مذہبی شدت پسندوں کی جانب سے بلوچ و پشتون طلبا پر تشدد قابل مذمت ہے : بی آر ایس او

182

بلوچ ریپبلکن اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے مرکزی ترجمان نے اپنے جاری کردہ ایک بیان میں پنجاب یونیورسٹی میں مذہبی شدت پسند تنظیم اسلامی جمیعت طلباء کی بلوچ و پختون طلباء پر تشدد کی سخت الفاظ میں مذمت کی ہے۔

بی آر ایس او کے مرکزی ترجمان نے کہا ہے کہ بلوچستان میں تعلیمی اداروں کی کمی اور بہتر تعلیمی نظام نہ ہونے و تعلیمی اداروں کو چھاؤنیوں میں تبدیل کرنے کی وجہ سے بلوچ طلباء علم کے حصول کے لیے دوسرے شہروں کا رخ کرتے ہیں لیکن وہاں بھی انہیں ریاست کے پالے ہوئے مذہبی شدت پسند طلباء تنظیموں کے تشدد کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ جس سے واضح ہوجاتا ہے کہ ریاستی ادارے بلوچ طلباء سے بھی حواس باختہ ہوچکی ہیں۔ اور ان کے لیے تعلیم کے تمام دروازے بند کیے جارہے ہیں تاکہ بلوچ نوجوانوں کو علم کے زیور سے محروم رکھا جا سکے۔

ترجمان نے کہا ہے کہ یہ پہلی مرتبہ نہیں ہے کہ پنجاب میں بلوچ طلباء کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے بلکہ اس سے پہلے بھی پنجاب کے مختلف تعلیمی اداروں میں بلوچ اور پختون طلباء کو بدترین تشدد کا نشانہ بنایاگیا ہے۔ پڑھا لکھا بلوچ معاشرہ کسی صورت پاکستان کو قبول نہیں ،پاکستانی ادارے روزِ اول سے یہ کوشش کرتے آ رہے ہیں کہ بلوچوں کو کسی نہ کسی طریقے سے تعلیم سے دور رکھا جا سکے۔

ترجمان نے اپنے بیان میں مزید کہا ہے کہ 31 جنوری2012 کو ریاستی خفیہ اداروں کے کارندوں نے بلوچ قومی رہنماء و بلوچ ریپبلکن پارٹی کے صدر نواب براہمدغ بگٹی کے ہمشیرہ و بھانجی کو کراچی میں بے دردی سے شہید کرکے اپنی بزدلی کی تمام حدیں پار کردی، ریاست بلوچ قوم کے ہر طبقے سے خوفزدہ ہے ۔ریاست کا نواب براہمدغ بگٹی کے ہمشیرہ و بھانجی کو شہید کرنے کا مقصد قائد بی آر پی کو بلوچ قومی جدوجہد سے دور کرنا تھا لیکن وہ پاکستانی خفیہ ایجنسیوں کی بھول تھی آج وہ بہتر طریقے سے بلوچ قومی مسئلے کو دنیا کے سامنے اجاگر کر رہے ہیں۔

ترجمان نے 31 جنوری 2018 کو بی آر پی کی جانب سے بلوچستان بھر میں شٹرڈاؤن ہڑتال کے کال کی حمایت کرتے ہوئے کاروباری حضرات، ٹرانسپورٹروں سمیت اہل بلوچستان سے اپیل کی ہے کہ 31 جنوری کے ہڑتال کو کامیاب بناتے ہوئے ریاستی دہشتگردی کے خلاف کھل کر اپنی نفرت و بیزاری کا اظہار کریں۔