کریمہ بلوچ – عمران بلوچ

608

کریمہ بلوچ

تحریر: عمران بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

ہمارے ہاں کسی بھی بڑے اور تاریخی کردار کے حامل شخصیت کے بارے میں جب لکھا جاتا ہے تو اسے  مختلف ناموں اور مختلفالقابات سے تشبیح دی جاتی ہے، خاص طور پر بات  جب کریمہ بلوچ کی ہو تو انھیں لمہ وطن اور بانک سمیت بہت سے نام اور ٹائٹلدیئے گئے ہیں، یقیناً وہ ان سب کے بلکہ اس سے بھی زیادہ کے مستحق ہیں۔ ہمارے ہاں اکثر جب ایسی تاریخی کرداروں کے حاملاشخاص کے بارے میں لکھا جاتا ہے یا ان کے بارے بولا جاتا ہے تو پھر چند الفاظ اور جملے ضروری دہرائے جاتے ہیں کہ جی شہیدکی جو موت ہے وہ قوم کی حیات ہے ، شہید کے خون کی خوشبو گلاب اور عطر کے خوشبو جیسی ہوتی ہے اور شہید کے خون کا رنگگلاب کے رنگ جیسا گہرا سرخ ہوتا ہے ، اور پھر یہ بھی سننے اور پڑھنے کو ملتا ہے کاش کہ نہ مرتا اور دوسری جانب کہا جاتا ہےزمین زادے اور شیر زالوں کی کمی نہیں ہے۔

جب میں نے کریمہ بلوچ کے حوالے سے کچھ لکھنا چاہا تو میرے ذہن میں بھی أیا کہ میں بھی اسے لمہ وطن ، بانک ، شہید ء وطنجیسا لقب دوں جیسا کے کالونائزر کے ظاہر ہے اثرات  ہیں، یعنی مادر ملت، شاعر ء مشرق، باباۓ ء قوم، راہشون اور سب سے بڑھ کرشیر جیسا ہے یا شیر أیا۔

بقول منظور بلوچ کے کچھ لوگوں کو کسی ٹائٹل کی ضرورت نہیں ہوتیکیونکہ اپنے اعمال کی وجہ سے ان کا نام اور کردار  ویسےہی بہت بڑے ہوجاتے ہیں۔

کریمہ بلوچ کون تھی, کس کردار کی مالک تھی اور ان کے ساتھ کن حالات میں کیا ہوا؟

میرا کریمہ بلوچ سے زاتی طور پر کچھ زیادہ اور ذاتی شناسائی تو نہ تھا البتہ دو ہزار چھ میں انھیں اور فریدہ بلوچ کو اعزازی طوررکن مرکزی کمیٹی لیا گیا اس دوران وہ شال آئی، بلوحستان یونیورسٹی کے گرلز ہاسٹل سمیت شال کے کچھ گرلز ہائ اسکولز میںتنظیم سازی/ یونٹ سازی کرنے اور گرلز ونگ بنانے کی زمہ داری ملی جو انھوں نے بخوبی نبھایا اس کے علاوہ قرت العین أئ ڈی ایسپی والے نے ایک دن کال کیا وہ بلوچ مسنگ پرسنز کے حوالے سے کسی مناسب بلوچ فیمیل ایکٹیوسٹ کا انٹرویو لینا چاہتی تھی تبکریمہ بلوچ سے اجازت لینے کے بعد میں نے ان کا مبائل نمبر شیئر کرکے رابطہ کرایا۔

البتہ کریمہ بلوچ أٹھ مارچ انیس سو تراسی کو غالباً دبئی میں پیدا ہوئی بلوچستان جہاں شیر زال اور زمین زادوں کے ساتھ ساتھکوئلہ ، تیل و گیس سمیت قیمتی پتھروں کوئلہ کے  ذخائر سمیت گہرا سمندر تو موجود ہیں جو کسی کا بھی قرض اتارنے اور اسےدیوالیہ ہونے سے بچانے کے لئے کافی ہیں پر وہ بلوچ کا چولہا جلانے کے لئے ناکافی ہیں ، اسی لیے روزی روٹی سمیت شاید امن کیتلاش میں کریمہ بلوچ کے والدین کو بھی دبئی منتقل ہونا پڑا تھا وہ وہاں پڑھیں اور ہوش سنبھالا پھر یقیناً مٹی کی خوشبو اسےدوبارہ اپنے وطن لے أئی ، کریمہ بلوچ بہت سارے لوگوں کی طرح کسی حادثاتی شخصیت اور کردار کی مالک نہ تھی اور نہ ہیحالات و واقعات کی پیداوار تھی بلکہ ان کا گھرانہ انیس سو ستر سے بلوچ قومی تحریک سے منسلک ہے لہذا نہ صرف ان کی باقاعدہسیاسی تربیت ہوئی بلکہ بلوچ کے سیاسی حالات کو جبر و استحصال کو انھوں نے کھلی کتاب کی طرح دیکھا تھا، اسی لئے مٹی کیمحبت جب انھیں بلوچستان کھینچ لے أئی مسخ شدہ لاشوں، اجتماعی قبروں أپریشنز مسنگ پرسنز جیسے انسانی المیے انھوں نے اسوقت کے بلوچستان میں دیکھا( أج بھی یہ سب زور و شور سے جاری ہیں)۔

کریمہ بلوچ دو ہزار پانچ میں بی ایس او سے منسلک ہوئی، دو ہزار چھ میں اعزازی طورپر بے ایس او کے مرکزی کمیٹی کی رکن بنی،دو ہزار أٹھ میں جونیئر وائس چیر پرسن منتخب ہوئی، دو ہزار گیارہ میں جب تنظیم مکمل طور پر پابندیوں اور انتقامی کاروائیوں کاشکار ہو جاتا ہے کیونکہ ذیادہ تر مسنگ پرسنز اور مسخ شدہ لاشیں بی ایس او کے ممبرز یا عہدیداروں کے ہوتے ہیں ایسے میں تمامتر زمہ داریاں ان کے کندھوں پر أجاتی ہیں اور وہ مرکزی أرگنائزر بن جاتی ہے حالانکہ یہ ایک بحرانی کیفیت ہوتی ہے جسے وہبخوبی نبھا کر تنظیم کا کونسل سیشن کرانے میں کامیاب ہوجاتی ہے اس طرح دو ہزار بارہ کے کونسل سیشن میں سینیئر وائسچیرمین منتخب ہوجاتی ہے سیاست میں اس سے بڑی دور اندیشی اور قربانی ہو ہی نہیں سکتا ہے کہ أرگنائزر اگلے سیشن میںچیرمین بننے کے بجائے وائس چیرمین بن جاۓ مگر کریمہ نے یہ سب کردکھایا اور پھر دو ہزار پندرہ کے کونسل سیشن میں چیر پرسنمنتخب ہوئی۔

دو ہزار پندرہ میں چیرپرسن بنتے ہی انھیں باقاعدہ دھمکیاں ملنا شروع ہوجاتے ہیں لہذا مجبوراً انھیں بلوچستان چھوڑ کر کینیڈا جاناپڑتا ہے ان کا کینیڈا جانا تنظیمی فیصلہ ہوتا ہے ایسا ان کے جان کی حفاظت کی خاطر کیا جاتا ہے جسے وہ قبول کرتی ہے بلوچ قوماور اس سرزمین کے لئے ان کے سیاسی جدوجہد ہمت و کردار خاص طور پر سیاسی سمجھ بوجھ اور دور اندیشی کو دیکھ کر بی بیسی جیسا عالمی ادارہ دو ہزار سولہ میں اپنے جاری کردہ سو متاثر کن شخصیات میں ان کا نام شامل کرتا ہے  یہ کریمہ بلوچ کیاپنی جدوجہد اور صلاحیتوں کی بدولت تھی .اپنے ایک انٹرویو میں کریمہ بلوچ کہتی ہے کہ دو ہزار سولہ میں جب وہ کینیڈا میں تھیتب کرسمس کے موقع پر انھیں شدید قسم کی دھمکیاں ملیں اور واپس آنے اور سیاسی جدوجہد ختم کرنے کا کہا گیاایسا نہ کرنے کیصورت میں انہیں خود خطرناک نتائج بھگتنے سمیت ان کے ماموں کو جانی نقصان پہنچانے کی بات کی گئی تھی، دو ہزار پندرہ سےلیکر دوہزار بیس یعنی ان کی شہادت تک بحالت مجبوری وہ کینیڈا کے شہر ٹورنٹو میں مقیم رہی ، دسمبر دو ہزار بیس کو گھر سےنکلی پھر وہ کھبی واپس نہ آئی اور بائیس دسمبر دو ہزار بیس کو ان کی لاش ایک جھیل سے ملی۔

یہاں بلوچ کی مسخ شدہ لاش ویرانے سے ملتی ہے بس وہ دیارغیر تھی اس لئے مسخ شدہ نہ تھی پر اس لاش نے بلوچ قومی اورسیاسی تاریخ پر انمٹ نقشے چھوڑے ہیں جو تاریخ کا رخ موڑنے کے لیے کافی ہیں۔  اور اس بات کا فیصلہ یقیناً وقت کریگی کہ بلوچنے کیا کھویا اور دشمن نے کیا پایا؟ البتہ کریمہ ارشد شریف تو نہیں کہ کوئ عدالت سو موٹو لے ٹالک شوز ہو تحقیقاتی کمیشن بنجاۓ ،  جس کے اپنے قدموں کے نشانات ہوں اس نے کیا تحقیق کرنا۔

کریمہ ان سب چیزوں سے بالاتر تھی اور ہے مگر ان کی شہادت کو بھی چھپانے ، غلط رنگ دینے اور ان کی سیاسی و قومی جدوجہدکو کم کرنے کی ناکام کوشش ضرور کی گئی پر وہ اپنے عمل جہد مسلسل اور قربانیوں کی بدولت ان تمام معاملات سے بہت اوپرجاچکی تھی۔ان کی خواہش اور پیغام کے مطابق ان کی لاش کو گل زمین بلوچستان ان کے أبائ گاوٴں تمپ میں دفن کیا گیا ہم سب نےیہ بھی دیکھا اور تاریخ کا حصہ رہے گا کہ نواب اکبر خان بگٹی کے بعد ایک اور بلوچ کی لاش نہ صرف مقید تھی بلکہ اب قبر بھیمقید ہے اور مسلسل نگرانی میں ہے کہتے ہیں کسی انسان کی عظمت اور کردار کی بلندی کا اندازہ لگانا ہے تو بس یہ دیکھے کہ اسکے دشمن کون ہیں اور کیا کررہے ہیں،

کریمہ کی لاش یرغمال کرنے اور مقید کرنے قبر کی نگرانی کرنے اور قبر کی جگہ پر یادگار نہ بننے سے اندازہ کر سکتے ہیں کہ وہاپنی دشمن پر کب کا نفسیاتی برتری حاصل کرچکی ہے، میں سمجھتا ہوں کریمہ بلوچ جیسے تاریخی اور عملی و لازوال کردار کےمالک شخصیت کو لقب دینا کسی مشہور کردار سے تشبیح دینا کوئی ٹائیٹل دینا بالکل بھی غیر مناسب ہے اسی طرح چئیرمین کےبجائے ان کے لئے چئیر پرسن لکھنا کم از کم میرے لیے بہت تکلیف دہ ہے، میں سمجھتا ہوں ایسا کرنا کریمہ بلوچ ، مائ بیبو اور لیلیٰخالد جیسی کامریڈوں کے ساتھ نا انصافی ہے۔

اس لئے میں یہ عرض کرتا ہوں کہ انھیں لقب، تعریف اور ٹائیٹل کی ضرورت نہیں ماسوائے اس کے کہ ان کی تعلیمات کو عام کیا جائے۔اسی لئے میں کریمہ بلوچ کو کوئی بھی ٹائیٹل دینے کے خلاف ہوں کیونکہ انھوں نے : کریمہ بلوچ بن کر اپنا جو مقام بنایا ہے جوتاریخ رقم کی ہے ان کے لئے وہی کافی ہے: بس اتنا سمجھیں کریمہ کون تھی، کیا تھی اور کیوں تھی؟انھیں نہتی لڑکی کہنا ان کےجدوجہد کے ساتھ نا انصافی اور خود کو چھوٹا کرنے والی بات ہوگی وہ گلی گلی نگر نگر گاؤں گاؤں اور شہر شہر گئ  اپنے سیاسینظریات و تنظیمی پروگرام کو پھیلایا ، کالونائزر کا منفی پروپگینڈہ تو ہے اور تا ابد رہے گا البتہ کریمہ بلوچ نے بلوچ سیاسی سماجسے مرد اور عورت کے درمیان فرق کو ختم کردیا ہے ، مائ بیبو نے نہ صرف اپنے بھائی کا بدلہ لیا تھا بلکہ أنیوالی میراث کے لئے ان کاتخت بھی بچایا تھا پر دیکھا جائے تو کریمہ نے کتنے بھائیوں کو بچایا تھا کتنوں کا بدلہ لیا کیونکہ ان کی جنگ کسی ایک بھائی یاکسی کے تخت کے لیے نہیں تھی بلکہ پوری بلوچ قوم کے لئے تھی اور ایک روشن مستقبل کے لیے تھی تبھی تو انھوں نے تاریخ کو ایکنیا موڑ دیدیا تھا۔

موجودہ بلوچ سیاست اپنے جس نہج کو پہنچ چکا ہے اس میں کریمہ ایک بنیاد کے طور پر ایک مضبوط اور روشن خیال اولین دستے کےعظیم رہنما کے طور پر ہمشہ یاد کیا جائے گا پر وہ ہرگز أخری نہ ہوگا کریمہ نے اپنے بلند سیاسی کردار اور جدوجہد کی بدولت اپنےنامکریمہ ؛ کو جس اونچائی تک پہنچایا ہے اور جس طرح تاریخ کا رخ موڑا ہے انھیں کسی ٹائیٹل کی ضرورت نہیں کیونکہ شاعرادیب دانشور قلمکار گلوگار سیاست دان اس پر لکھ کر گا کر اور بول کر خود پر اپنے قلم پر زبان پر الفاظ پر فخر محسوس کرینگے  ٹائیٹل تو کسی کی شخصیت کو بڑا کرنے کے لیے دیا جاتا ہے لیکن وہ تو خود اپنی زات اپنی کردار اور عمل میں  بہت بڑی تھی پھربلوچ سرزمین اتنی بھی بانجھ نہیں کہ یہ لازوال کردار أخری ہونگے ، ایک ایسا معاشرہ جہاں غلامی کے اثرات ہوں ان اثرات کو طولدینے کے لیے قبائلی جاہل ان پڑھ عورتوں پر ظلم کرنے والےانھیں گھر کی چار دیواری میں بند کرنے والے سمیت اور کن کن دقیا نوسیالقابات سے نہیں نوازتے،  پھر یہ تمام ایسے محاذ ہیں جہاں کریمہ بلوچ نے جنگ لڑی جدوجہد کی اور سرخرو ہوئی۔

کریمہ بلوج اس بلوچ سماج میں اور أج کے دور میں ایک چینج ایجنٹ تھی ایک عالمی کردار تھی، وہ سماجی تبدیلی سمیت قومیغلامی کے خلاف جدوجہد کرنے والی عظیم سالار تھی ان کے اس جدوجہد کے اثرات صدیوں پر محیط ہونگے ۔ کالونائزر تو کہتا ہےعورت کی حکمرانی نحوست ہے بلوچ اپنی عورتوں کو کھانے کو گوشت نہیں دیتے پڑھاتے نہیں ہیں بس انھیں بند رکھا ہے کریمہ نےاپنی زندگی میں کالونائزر کے ایسے تمام منفی پروپگینڈے کو غلط ثابت کیا انھوں نے ایک غلام سماج میں کامیاب تاریخ رقم کی اور ایکپوری نسل کو لیڈ کیا ان کے جنازے میں مرد و عورت یکساں شامل ہوۓ سب نے ان کی لاش کو کندھا دیا اور نماز جنازہ بھی مل کرپڑھا کیونکہ یہ روشن چراخ اور شعور کی کھڑکی کریمہ بہت پہلے کا اس قوم کے لیے کھول چکی تھی ۔

وہ اپنی زندگی میں دو ہزار پانچ سے دو ہزار بیس تک متحرک رہی اس لئے انھیں یہ سمجھ کر راستے سے ہٹایا گیا کہ بس وہ صرفایک ٹائیٹل کی حقدار ہونگی اور بس۔۔۔ لیکن انہیں شہید کرنے والے یہ نہ سمجھ پائے کہ ان کی لاش ان کی شہادت اور قبر سب ایساتاریخ رقم کر چکے کہ جو سفر شاید پچاس یا سو سال بعد طے ہونا تھا وہ اس لاش نے لمحوں میں کردیا کیونکہ وہ ایک لیڈر تھی ایکسوچ تھی اور ایک فکر ہے اور رہینگی، یہ ان کی قبر پر پہرا دینے والے دشمن سے زیادہ اور کون جان سکتا ہے۔ چے مرا نہیں چے زندہہے یہ اس کے دشمن سے پوچھو ، بھگت مرا نہیں زندہ ہے اس کی بھی گواہی وہی دشمن دیگا جسے أج بھی بالاچ اور اکبر نام ناپسند ہیں۔

اب کریمہ کے جدوجہد کی بدولت بلوچ سماج میں مرد و عورت کا فرق ختم ہوا اور سب ایک مورچے کے سپاہی بن چکے ہیں بلکہ یہعورت ہی تھی جس کی وجہ سے جدوجہد کرتے وقت بلوچ مرد کے پیر کانپتے تھے اور اب اس لیے کانپتے ہیں کہ کہیں  کوئی کریمہانھیں بزدلی کا شغان نہ مارے۔۔۔ بے شک وہ چاہتی تھی کہ وہ أخری نہ ہو بلکہ یہ نسل بڑھے اور کامیابی حاصل کرے یہی ان کاٹائیٹل ہے۔۔۔ ہاں البتہ کریمہ ایک تھی۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔