انسانی حقوق کا عالمی دن: بلوچ طلباء کا اسلام آباد میں احتجاج

386

طلباء کی جانب سے انسانی حقوق کے عالمی دن کے موقع پر بلوچستان سمیت پاکستان کے دیگر شہروں سے جبری گمشدگیوں، بلوچ طلباء کو ہراساں کرنے اور بلوچستان میں انسانی حقوق کی پامالیوں کے خلاف احتجاجی ریلی نکالی گئی۔

احتجاجی ریلی سلام آباد میں بلوچ اسٹوڈنٹس کونسل کی جانب سے نکالی گئی جس میں بلوچ طلباء و طالبات سمیت سول سوسائٹی کے ارکان نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔

اسلام آباد احتجاج کے حوالے سے پریس رہلیز جاری کرتے ہوئے بلوچ طلباء کا کہنا تھا آج انسانی حقوق کے عالمی دن کی مناسبت سے اور اس احتجاجی مظاہرے کی توسط سے ہم اس امر کی جسارت کریں گے کہ بلوچستان میں دہائیوں سے انسانی حقوق کی پامالی  تسلسل کیساتھ کیجارہی ہے جہاں بلوچ طلباء، سماجی کارکن، صحافی اور دیگر افراد حتیٰ کہ خواتین اور بچے بھی اس شر سے  محفوظ نہیں ہیں۔ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر فوری توجہ دینے کا مطالبہ کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا بلوچ طلباء کو لاپتہ کرنا اُنہیں مختلف ذرائع سے مسلسل ہراساں کرنا اب ایک واضح ریاستی پالیسی بن چکی ہے ہم یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ تعلیمی اداروں سے بلوچ طلباء کا جبری طور پر لاپتہ ہونا بدترین انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے اور ایسے واقعات اب بلوچستان کے تعلیمی اداروں میں روزانہ کا معمول بن چکے ہیں جہاں یکم نومبر 2021 کو سہیل بلوچ اور فصیح بلوچ یونیورسٹی آف بلوچستان کے  ہاسٹل کے احاطے سے جبری طور پر لاپتہ کیے گئے تھے اور اب تک وہ منظرِ عام پہ نہیں لائے گئے۔

طلباء کا کہنا تھا فیروز بلوچ جو بارانی زرعی یونیورسٹی راولپنڈی کا طالبعلم ہے اس کو راولپنڈی میں بارانی زرعی یونیورسٹی کے احاطے سے  جبری طور پر لاپتہ کیا گیا 7 ماہ مکمل ہونے کے باوجود وہ تاحال بازیاب نہ ہو سکے سعود ناز بلوچ جو کہ ایک کمسن طالب علم ہے جنہیں 25 اکتوبر 2022 کو جبری طور پر لاپتہ کرکے نامعلوم مقام پہ منتقل کردیا گیا اور دو روز قبل کمپیوٹر سائنس کے طالب علم نورخان بلوچ کو کوئٹہ کے نواحی علاقے عیسیٰ نگری سے جبری طور پہ لاپتہ کرکے نامعلوم مقام منتقل کر دیا گیا جن کی تا حال کوئی معلومات حاصل نہ ہو سکی۔

انہوں نے کہا بلوچستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا ایک نہ رُکنے والا سلسلہ جاری ہے جہاں بچے، بوڑھے، طلباء اور حتیٰ کہ عورتیں بھی محفوظ نہیں اگر ہم ماضی میں جھانکیں تو 2019 کو بلوچستان کے علاقے ضلع آواران سے بلوچ ماؤں اور بہنوں کو جبری طور پہ لاپتہ کیا گیا تھا جنہیں بعد ازاں منظرِعام پہ لاکر رہا کیا گیا رواں سال 27 اپریل کو ضلع پنجگور سے شاہ بی بی ولد سُھراب کو اُن کی بچیوں سمیت لاپتہ کیا گیا جنہیں بعد ازاں بازیاب کیا گیا درجنوں ایسے واقعات اس امر کی تصدیق کرتے ہے کہ جبری طور پہ گمشدہ افراد کے لواحقین کو احتجاج جیسے بنیادی حق اور انہیں مختلف ہتھکنڈوں کے ذریعے پرامن جدوجہد سے دستبردار کرنیکی کوششیں بھی کیجارہی ہے اور اُنہیں ڈرامہ کہہ کر کراچی، کوئٹہ اور اسلام آباد سمیت پورے ملک میں لاپتہ افراد کے لواحقین کو احتجاجی مظاہروں میں تذلیل کرنا اور اُنہیں تشدد کا نشانہ بنانا بلوچستان میں انسانی حقوق کی پامالی کا واضح ثبوت ہے

انکا کہنا تھا کہ بلوچ طلباء کی جبری گمشدگی اور پروفائلنگ کو لیکر بلوچ طلباء نے انصاف کے تمام دروازوں کو دستک دی لیکن بدقسمتی سے ہمارے خدشات کو دور نہیں کیا جاسکا بلوچ طلباء نے عدالت عالیہ سے رجوع کیا جہاں بلوچ طلباء کو جبراً لاپتہ کرنے اور انہیں ہراساں کرنے کے خلاف ایک عدالتی کمیشن کا قیام عمل میں لایا گیا لیکن بدقسمتی سے یہ کمیشن بھی ہمیشہ کی طرح بنائے گئے کمیشنز کی روایات کو برقرار رکھتے ہوئے مایوسی کے سوا کچھ نہ دے سکا بلکہ جب سے کمیشن کا قیام عمل میں لایا گیا ہے مزید بلوچ طلباء اور دیگر افراد کو جبری گمشدگی کا شکار بنایا جارہا ہے انصاف کے تمام دروں کو دستک دینے کے باوجود شنوائی نہ ہونے سے بلوچ طلباء کا ریاستی نظامِ انصاف سے یقین اُٹھ چکا ہے اب مزید عدلیہ اور کمیشنز کے دھوکے اور فریب کی جانب راغب نہیں ہو سکتے.

طلباء کا مزید کہنا تھا 10 دسمبر انسانی حقوق کے عالمی دن کے اس احتجاجی مظاہرے کی مناسبت سے ہم تمام عالمی انسانی حقوق کے تنظیموں سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ بلوچستان کے تمام بُنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا سختی سے نوٹس لیں اور بلوچ طلباء کی جبری گمشدگیوں کے خلاف اپنا مؤثر کردار ادا کریں.