مستونگ ایجوکیشنل فیسٹول اختتام پذیر، گام میگزین کی رونمائی

309

بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کے مرکزی ترجمان نے بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ تنظیم کی جانب سے منعقد شدہ مستونگ ایجوکیشنل فیسٹول کامیابی کے ساتھ اختتام پذیر ہوا۔ جس میں گام میگزین کی تقریب کی رونمائی سمیت بلوچ لٹریسی کیمپن اور مادری زبان میں تعلیم کی افادیت پہ پینل ڈسکشنز کیئے گئے جبکہ بچوں کی ادب، مادری زبان میں تعلیم کا نفسیاتی جائزہ سمیت بلوچستان کے تعلیمی مسائل پہ تقاریر کئے گئے۔

انہوں نے مزید گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مستونگ بلوچ سیاست و ادب میں ایک خاص اہمیت رکھتا ہے جس میں نامور سیاسی رہنماء اور ادبی دانشوروں نے بلوچ سماج میں اہم مقام پیدا کیا ہے۔ عرصہ دراز سے مستونگ مختلف غیر سماجی عناصر کا گڑھ رہا ہے جس سے مستونگ کی سیاسی اور ادبی ماحول پہ قدغنیں عائد کی گئیں۔ تنظیم ایک عرصے سے مستونگ میں ادبی پروگرام منعقد کرنے کا خواہش مند رہا اور بالآخر تنظیمی کارکنان کی محنت اور مخلصی سے مستونگ ایجوکیشنل فیسٹول کا انعقاد کیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی بلوچ طلباء کی تعلیم اور تربیت میں اپنی جدوجہد کو جاری رکھتے ہوئے اس طرح کے ادبی اور تعلیمی فیسٹول کا انعقاد تسلسل کے ساتھ کرتا آرہا ہے۔ نوشت میگزین سمیت تنظیم نے “گام” میگزین شائع کرنے کا شعوری فیصلہ لیا تاکہ بلوچ طلبا میں بلوچی اور براہوئی میں لکھنے پڑھنے اور تخلیق کرنے کی صلاحیتوں کو اجاگر کیا جاسکے۔ مستونگ ایجوکیشنل فیسٹول میں گام میگزین کی تقریب رونمائی کی گئی جس کا مقصد سکول اور کالجز کی سطح کے طلبا کئلیے لکھنے اور پڑھنے کا معیاری لٹریچر مہیا کرنا ہے۔ تنظیم بلوچ طلبا کی سیاسی اور سماجی تربیت کو بلوچ نیشنلزم کا بنیادی اساس سمجھتی ہے۔ جس کیلیے آئندہ وقتوں میں بھی نوشت اور گام میگزین کی اشاعت کا تسلسل جاری رہے گا۔

انہوں نے مزید گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پروگرام کے دوسرے حصے میں بلوچ لٹریسی کیمپین پہ ایک تعارفی پینل ڈسکشن رکھا گیا جس میں مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل اور کوئٹہ زون کے وائس پریذڈنٹ فوزیہ بلوچ نے لٹریسی کیمپین کی اہمیت او افادیت اور تنظیمی سرگرمیوں کو اجاگر کیا جس میں موڈریٹر کے فرائض بساک کوئٹہ زون کے جنرل سیکرٹری عامر بلوچ نے انجام دیئے۔ مادری زبانوں میں تعلیم پہ پینل ڈسکشن رکھا گیا جس کے پینلسٹ پروفیسر حامد بلوچ اور لیکچرر آصف بلوچ تھے۔ جنہوں نے مادری زبان میں تعلیم کو بنیادی انسانی حق قرار دیتے ہوئے کہا کہ کسی بھی انسان کی تخلیقی قوت میں مادری زبان کا بہت زیادہ عمل دخل ہے۔ جب مادری زبان کے بجائے دوسرے زبانوں میں تعلیم دی جائے تو اس سے طلبا میں احساس بیگانگی جنم لیتی ہے اور تعلیمی سرگرمیوں میں وہ دلچسپی نہیں رہتی۔ یہی وجہ ہے کہ بلوچستان میں تعلیمی رجحان میں کمی دیکھنے کو ملتی ہے۔

پروگرام کے آخری حصے میں بچوں کی ادب اور اس کی اہمیت پہ پروفیسر زیب النساء بلوچ نے مفصل لیکچر دی جبکہ مادری زبان میں تعلیم اور اسکی نفسیاتی جائزہ پروفیسر منیر بلوچ اس میں مقرر تھے جنہوں نے مادری زبانوں میں تعلیم اور اس کے نفسیاتی اثرات پہ بات رکھتے ہوئے کہا کہ ایک بچے کا دماغ موم کی مانند ہوتی ہے اسکی شخصیات پہ خاندان اور سماج کا ایک گہرا چھاپ موجود ہوتا ہے کیونکہ وہ ان سے مسلسل سیکھتا رہتا ہے۔ ہمیں بچوں کے نفسیاتی مسائل کو قریب سے پرکھنا ہوگا اور تعلیم کو ان کی نفسیاتی دباؤ بنانے کے بجائے صحت مند بنایا جائے تاکہ وہ بڑے ہوکر سماج کی تشکیل میں کردار ادا کرسکیں۔

بلوچستان میں تعلیمی مسائل پہ آخری تقریر نرگس سلطانہ بلوچ نے کی جنہوں نے بلوچستان کے طول و عرض میں تعلیمی اداروں کا قریب سے جائزہ لی ہے۔

انہوں نے کہا کہ تعلیم بغیر اداروں کے ممکن نہیں مگر افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ کچھ بڑے شہروں میں چند ایک تعلیمی سہولتیں میسر ہیں لیکن باقی جگہوں پہ بنیادی سہولیات ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتے۔ ہمارا سکولنگ سسٹم مکمل طور پر ناکام ہے تعلیمی ایمرجنسی محض سیاسی بیان بازی تک محدود رہا۔ ہمیں بلوچستان میں تعلیمی نظام پہ ایک نئی پالیسی بنانا ہوگا۔

اپنے بیان کے آخر میں انہوں نے کہا کہ تنظیم بلوچ طلبا کی تربیتی عمل کو اسی طرح جاری رکھے گا بلوچ عوام تنظیم کی لٹریسی کیمپین میں حصہ لے اس کو کامیاب بنانے میں ہمارا ساتھ دیں تاکہ بلوچستان میں غیر فعال سکولز سمیت نئے سکول اور تعلیمی ماحول کو فروغ دیا جاسکے