یہ دھرتی تم پہ نازاں ہے – افنان بلوچ

389

یہ دھرتی تم پہ نازاں ہے

تحریر: افنان بلوچ

بقاء و فنا کی اس جنگ میں کئی خوبرو نوجوان قربان ہوئے ہیں، اور کئی ایک اپنی منزل کی تلاش میں سرگرداں ہیں۔ دھرتی کی محبت بھی کیا خوب ہوتی ہے جو کھنیچ لیتی ہے تو پھر اس سے شہداد نکلتے ہیں، اس کے ساتھ شہداد جُڑتے ہیں اور اس پہ شہداد فدا ہوتے ہیں پھر کوئی اور اس پرچم کو گرنے سے پہلے تھام لیتا ہے عشق میں مدہوش ہوکر کھو جاتا ہے یہ سلسلہ یونہی رواں ہے کہاں جاکر دم لے گا اس کا اندازہ لگانا شاید ممکن نہیں کیونکہ تاریخ فیصلہ اپنے حساب سے سناتی ہے۔ وہ خواہشات کی بنیاد پہ نہیں ہوسکتی۔ مگر تاریخ زندہ رکھتی ہے ہر اس فرزند کو جو ازل سے شاری بنتے ہیں۔ تم بھی تو اسی راہ کے شیدائی تھے فدائی تھے۔

سنو سنگت!
یہاں کئی ایک کہانیاں گھڑی جاتی ہیں، کئی ایک دلائل بنتے ہیں، مگر عمل سے عاری، جیسے چاہیں کوئی بھی بیانیہ بنا سکتے ہیں۔ شعور کی تعریف شاید لفظوں میں ممکن نہیں یا مجھ جیسا کوئی لاعلم اس کو الفاظ کا روپ نہیں دے سکتا۔ یہ کہنا کہ یہ جنگ اس لئے شدت اختیار کر رہا ہے کہ اب تعلیم یافتہ نوجوانوں کے ہاتھوں میں ہے ممکن ہے یہ تعریف صحیح ہو مگر معذرت چاہوں گا، میں اس بیانیے سے اتفاق نہیں کرتا۔ کیونکہ وہ ماما مری جس نے کبھی روایتی تعلیم حاصل نہیں کی، وہ ازل جو چرواہے سے فدائی بنا، وہ ہنگل جو تمھارے ساتھ والی قبر میں ابدی نیند سو رہا ہے ان کی تعریف میں تعلیم اپنی اہمیت کھو دیتا ہے۔ میں اس کو وطن کا عشق سمجھتا ہوں جو شاید شعور کی اکیڈمک تعریف سے بہت اوپر ہے۔

یہاں کچھ لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ رومانویت کے شکار لوگ تھے، جذباتی تھے۔ بھلا جنگ بھی کوئی رومانس ہے؟ پھر وہ ستر سال کا بوڑھا بلا مری جس نے پچاس سال جہد میں گزارا وہ بھی رومانیت کا شکار تھا؟ کیا اس زمانے میں ایسی تعریفیں کسی ڈکشنری میں تھیں؟ سب کچھ چھوڑ کے، ایک ایسی منزل کا انتخاب کرنا جہاں بس قربانی، تکلیف اور مرگ شہادت ہو، اس قدر لفاظیت سے ان قربانیوں کی توہین کرنا جہالت نہیں تو اور کیا ہے؟ تمھارے روح کو ازیت پہنچتا ہوگا جب کچھ لوگ دانشوری اور جدیدیت کے نام پہ آپ جیسے شہدا کا تمسخر اُڑاتے ہیں؟

جب آپ کی ساتھیوں سمیت شہادت کی خبر بلوچ میڈیا پہ چلی، ہر آنکھ اشکبار تھا۔ ہمارے ہاں بلوچی میں کہاوت ہے “ ورنائی ءِ مرگ ھُدا دژمن ءَ ھم مہ دنت” دشمن تو دشمن ہے وشین، سوچو اس کیلئے بلوچ ایسی محبت بھری کہاوت بولتا ہے تو آپ تو اپنے ہو، اس دھرتی کا حقیقی خون، اس ماں کا حقیقی بیٹا، اس سرزمین کا حقیقی وارث، پھر آپ جیسے جوانوں کا اتنی جلدی چلے جانا، اور اس پہ اشکبار نہ ہونا بھلا ممکن ہے؟

ہمیں معلوم ہے کہ جو اس جہاں سے چلے جاتے ہیں اس کیلئے یہ کہاوت بھی ہے کہ “ فلاں شہ اے دنیا ءَ سرنیاتک ء” جو ایک اور دنیا کیلئے کسی کو سپرد کرنے جیسا ہے مگر ساتھ میں یہ غم بھی جو بابا خیر بخش نے بالاچ کیلئے کہا تھا “ زندہ رہتا بھوکا رہتا، اور کندن بن جاتا” ہمیں تو بس آپ جیسے ساتھیوں کا کندن بن جانے سے پہلے چلے جانے کا غم کھائے جاتا ہے ورنہ ہمیں بھی معلوم ہے جو راستہ آپ نے چنا تھا وہاں سے واپسی صرف سئے رنگی پرچم میں لپٹے ممکن ہے۔ تم سرخرو ہوئے۔ بولان تبھی اس قدر توانا ہے کہ آپ جیسے شہدا ہنستے مسکراتے اس کے سینے میں دفن ہوجاتے ہیں۔ بولان کو شکست نہیں آفتاب کو کوئی بھی فنا نہیں کرسکتا وہ فتح بن کر ابھرتے ہیں آفتاب بن کے دھرتی کو روشن کرتے ہیں پھر غروب ہوجاتے ہیں ایک نئی صبح کی خاطر۔

سنو! بولان کے سینے میں دفن ہوئے تمھیں ایک سال سے زائد کا عرصہ بیت چکا ہے لیکن تمھارے لہو کی خوشبو آج بھی موجود ہے۔ وطن کے کونے کونے میں، آپ کی ہمت، جوش جذبہ، اور بہادری کے قصے ہر لب پہ ہیں، کسی کو امر ہونا ہو وہ آپ کی طرح کا منزل چن لے، تا ابد قائم رہے گا۔ تمھارے ہم عمر، سنگت دوست، اور اہل علاقہ میں ہر وہ شخص جو آپ سے کہیں کسی جگہ ملا ہو وہ نازاں ہے کہ چیئرمین کے ساتھ میں نے فلاں جگہ وقت گزارا ہے۔ یہی وابستگی تو جیت ہے یہی اپنائیت تو فتح ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں