بولان آپریشن: خواتین زیر حراست، مسلح جھڑپیں جاری

853

بلوچستان کے علاقے بولان میں آج چھٹے روز بھی فوجی آپریشن جاری ہے، درجنوں خواتین تاحال فوج کے زیر حراست ہیں جبکہمختلف مقامات پر جھڑپوں کی اطلاعات ہیں۔

پاکستان فوج نے بولان و گردنواح میں گذشتہ دنوں بڑے پیمانے پر فوجی آپریشن کا آغاز کیا جس کو آج چھ روز ہورہے ہیں۔ اس دورانہیلی کاپٹروں کی شیلنگ و بمباری کے علاقے جیٹ طیاروں کو مسلسل فضاء میں دیکھا گیا ہے۔

پاکستان فوج نے درجنوں خواتین و بچوں کو اوچ کمان و گردنواح کے علاقوں میں زیرحراست رکھا ہے جن میں سے 13 کی شناختہوسکی ہے۔ مذکورہ خواتین و بچوں میں جبری گمشدگی سے متاثرہ لواحقین بھی شامل ہیں۔

دریں اثناء پاکستان فوج اور بلوچ آزادی پسندوں کے درمیان مختلف مقامات پر ایک دفعہ پھر جھڑپیں ہوئی ہے تاہم اس حوالے سے مزیدتفصیلات آنا باقی ہے۔

گذشتہ دنوں پاکستان فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر نے علاقے میں آپریشن کی تصدیق کرتے ہوئے کہا تھا کہ مسلحجھڑپوں میں دو ایس ایس جی کمانڈوز ہلاک ہوئے ہیں۔ آئی ایس پی آر نے چار بلوچ آزادی پسندوں کے مارے جانے کا بھی دعویٰکیاتھا تاہم آزاد ذرائع سے اس کی تصدیق نہیں ہوسکی ہے۔

بعدازاں بلوچ لبریشن آرمی کے ترجمان جیئند بلوچ نے بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ جھڑپوں میں پاکستان فوج کے آٹھ ایس ایس جیکمانڈوز مارے گئے ہیں۔

بولان آپریشن میں خواتین و بچوں کو زیر حراست رکھنے پر انسانی حقوق کی تنظیموں سمیت دیگر تشویش کا اظہار کررہے ہیں جبکہحکام کو تنقید کا سامنا پڑ رہا ہے۔

بلوچ یکجہتی کمیٹی کے ترجمان نے کہا کہ بولان کے علاقوں سے درجنوں خواتین اور بچوں کو سیکورٹی فورسز نے زیرحراست لیکرنامعلوم مقام پر منتقل کر دیا ہے جن کے حوالے سے مقامی لوگوں کو کوئی علم نہیں جبکہ دوسری جانب بولان کے مختلف علاقے گزشتہپانچ دنوں سے مکمل محاصرے میں ہیں جس سے لوگوں کیلئے سانس لینا محال بن چکا ہے۔

ترجمان نے مزید کہا کہ علاقے میں شدید خوف و ہراس پھیل چکا ہے اور مقامی آبادی کو بنیادی ضروریات اشیاء سے مکمل طور پرمحروم رکھا گیا ہے جس سے ایک انسانی المیہ جنم لینے کا خطرہ پیدا ہوچکا ہے۔ آپریشن کے نام پر خواتین و بچوں کو زیر حراستمیں لینا، علاقوں کو محاصرے میں رکھنا، عوام کو بنیادی ضروریات اشیاء سے محروم رکھنا جنگی جرائم ہیں۔ ہزاروں افراد کو اسطرح موت کے منہ میں چھوڑنا سنگین انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔