دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے – گوریچ بلوچ

381

دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے

تحریر: گوریچ بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

ہر لمحہ تابش کو یہ احساس اندر ہی اندر کھائے جا رہی تھی کہ اگلی صبح کی کرن نصیب ہوگی یا زمین اپنی آغوش میں چھپا لے گا، ہر آہٹ اس کے لئے خطرے کی گھنٹی بجا رہی تھی، ہر انجان شخص اسے مشکوک لگتا تھا جا بجا لوگوں کا ان سے ٹکرانا اس کی اذیت اور تکلیف میں بے جا اضافہ کرتا رہتا اسے لگتا جیسے آئی ایس آئی والے اس پر نظر رکھنے کے لئے کچھ خفیہ اشخاص مقرر کئے ہوئے ہیں جو ہر لمحہ انکی نگرانی کر رہے ہوں اور انکے بارے میں معلومات اکھٹی کر کے ان تک پہنچ رہے ہوں۔

وہ ہی نہیں نہ جانے اور کتنے لوگ اس ذھنی کوفت میں زندگی جی رہے تھے ہر کوئی ڈر کر جی رہا تھا جا بجا خوف کا سماں تھا۔ کوئی نہیں جانتا تھا کہ اگلے پل میں اس کے ساتھ کیا ہونے والا ہے ہر آنے والے
سماج میں خبر پھیل جاتی ہے کہ خفیہ اداروں نے کچھ لوگوں کو لاپتہ کرکے نامعلوم مقام پر منتقل کردیا کچھ نقاب پوش کالی ویگو میں آئے اسکی آنکھوں پر پٹی باندھ کر اسے اپنے ساتھ لے گئے اور پھر کچھ سال یا کچھ مہینہ بھی ایک خبر سوشل سائٹ کی زینت بنتی کی ایک شخص کی مسخ شدہ لاش ویرانے میں پڑی ملی یا ایدھی والوں کو کچھ لاوارث لاشیں ملی ہیں اگر کسی کے پیارے غائب ہیں تو وہ آکر لاش کی شناخت کریں یا پھر اگلی صبح حکومت اہلکار صبح اخبار میں چھاپ دیتے کہ سیکیورٹی فورسز کا بلوچستان کے شمالی جات میں کامیاب آپریشن، دہشگردوں کے ٹھکانہ تباہ مقابلہ میں فلاں تنظیم کے اتنے اہلکار مار دیے گئے ہیں انکی قبضہ سے اتنا اسلحہ و بارود برآمد کر لیا گیا۔ اس طرح بیان دیکر کر جھوٹ سچ بنا دیا جاتا۔

سی ٹی ڈی کی جانب سے بارہا یہ کھیل رچایا جاتا مظلوم بلوچوں کو لاپتہ کرکے انکو ماردیا جاتا اور بعد میں بیان جاری کیا جاتا کہ بلوچ علیحدگی پسند تنظیموں کے اتنے اہلکار ہلاک کئے گئے۔

پچھلے کچھ سالوں سے یہ انوکھا کھیل کھیلا جا رہا تھا جہاں پر بلوچ طلبہ یا مقامی افراد کو کچھ لوگ بلیک ویگو یا ڈارک گاڑی میں ڈال کر نا معلوم مقامات پر منتقل کردیتے۔

عرصوں تک انکا پتہ نہیں چل جاتا پھر ایک دن خبر آجاتا کہ عسکری قیادت کے ساتھ جھڑپ میں فلانہ دہشتگرد مارا گیا یا یہ کہ فلانی کی مسخ شدہ لاش برآمد ہوچکی ہے جسے بری طرح سے اذیت دیکر مار دیا گیا ہے۔ اس کی آنکھیں ایسی نوچی جاتی جیسے کوئی چیل مردہ اجسام کے ساتھ کرتا ہے انکے سر میں اس طرح گولی مار دی جاتی جسے دیکھتے ہی انسانی ضمیر جھجوڑ کر رہ جاتا۔

ایسے سفاکانہ طریقہ سے قتل کر کے لوگ کے دلوں میں اپنا ڈر قائم کرکے لوگوں کو اپنا غلام بنا لیتے اور خوف کی فضا قائم کر کے یہاں کی معدنیات ہڑپ کرکے سرمایہ داروں کی اجارہ داری قائم کی جاتی تھی۔ ان خبروں کو مقامی اخبار یا قومی اخبار میں بالکل جگہ نہیں ملتا اگر کئی ایک آدھ خبر میں خبر چھپ بھی جاتی تو ایک یا دو کالم کی خبر لگ جاتی اخباروں کی سرخیوں میں تو صرف جمہوریت کے گن گائے جاتے ہر کوئی اپنے حریف کے گریبان میں ہاتھ ڈال کر ایک دوسرے پہ کیچڑ اچھال دینے میں مگن رہتا اگر غلطی سے کوئی قیادت مخلص نکل بھی جاتا تو اسے دے دلاکہ چپ کرایا جاتا۔

یہاں کے منتخب نمائندے قاتلوں کے ساتھ ایک ہی دستر خواں پہ کھانا تناول فرماتے اور اگلی صبح ایک دھواں دار تقریر کرکے اپنے آپ کو بلوچ قوم کا خیر خواہ بلوچ قوم کا حقیقی ورث گردانتے اور مسخ شدہ لاشوں اور لاپتہ افراد کو بازیاب کرنے کا عہد کرلیتے اور پھر کچھ دنوں بعد چپ کا روزہ رکھ لیتے تھے یا اخبار کے ایک چھوٹے سے حصہ میں ایک مزاحمتی بیان دیکر خود کو بری الذمہ خیال کرتے ہیں اور انکا اخباری بیان کچھ اس طرح کا ہوتا ہے کہ ہماری تو نسل کشی کی جارہی ہے ہمارے ساتھ کشمیر جیسا سلوک روا رکھا گیا ہے ہماری مائیں بیٹوں کی آس لئے اس دینا فانی سے رخصت ہو رہے ہیں مگر اپنے پیاروں کی ایک جھلک دیکھنے سے بھی محروم ہیں اور یہ چھپوا کر خد کو برالذمہ قرار دیتے ہیں اور پھر وہی سلسلہ جاری رہتا تھا لوگوں کو ایک ایک کرکے
اٹھا لیا جاتا اور مسخ کرکے انکی لاش پھینک دیا جاتا۔

اور اس بار ان مسخ شدہ لاشوں میں ایک لاش تابش بلوچ کی تھی جسے ہر لمحہ یہ خوف کا احساس رہتا تھا کہ نہ جانے اس کی باری کب آئیگی اور اس کی باری آگئی۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں