بے بس طلباء اور یونیورسٹی آف سرگودھا کا انتظامیہ
تحریر: سراج نور
دی بلوچستان پوسٹ
38 سال ہوچکے ہیں کہ طلباء بے بس لاچار ہیں، پتہ نہیں اور کب تک لاچار بے بس مجبور رہینگے، پتہ نہیں کہ کب تک اسکول کالج اور یونیورسٹی انتظامہ طلباء کی آواز کو اپنے جوتے کی نوک پر رکھ کر دبائینگے، کتنے دن مہینے اور سال اس طرح دبا کے رکھیں گے، یہ درد صرف کوئی باشعور طالب ہی سمجھ سکتا ہے اس کے علاوہ اور کوئی بھی نہیں۔
لیکن اس نظام نے طلباء کو تربیت، شعور، زانت، نظریہ اور اخلاقی تربیت سے بہت دور رکھا ہے، اب ہزاروں طلباء میں سے ایک ایسا طالب علم ہوگا کہ وہ اسٹوڈنٹس یونین کی بات کریگا، وہ طلباء کے حقوق کی بات کریگا، لیکن باقی اپنے خیالاتی دُنیا میں مگن ہیں، نہ ملک کا غم نہ قوم کا بسی اپنی پڑھائی ، باقی دُنیا بھاڑ میں جائے۔
لینن کہتا ہے کہ نوجْوان قوم کی ریڑھ کی ہڈی کے مانند ہیں، لیکن بد قسمتی سے پاکستان میں اس ہڈی کو کمزور کرنے کیلئے ایک ضیا پیدا کیا گیا پھر وہ ضیا ایک جنرل بن گیا اور وہ جنرل سے آمر پھر آمر سے صدر پھر صدر سے تاریخ میں ایک سْیاہ باب بن گیا۔
اس آمر جنرل نے اپنے دور اقتدار میں طلباء یونین پر پابندی نہیں بلکہ اس پاکستانی قوم کو شعور، علم سْیاسی شعود سْیاسی ڈسکیشن بحث مباحث فکر و سوچ سے دور رکھا گیا، اور یہ لاشعور قوم خوشی خوشی دور ہوکر اتنی دور چلی گئی کہ اب واپس اس دُنیا میں جانے کی کوشش نہیں کررہا۔
جب 9 فروری 1984 کو اسٹوڈنٹس یونین پر پابندی عائد ہوئی، اس کے بعد بے نظیر بھٹو کی پہلے دورِ حکومت میں 1989 میں ختم کردی گئی لیکن اب ہمارے معزز جج صاحبان کو یہ گوارا نہیں ہوا کہ اس ملک میں نوجْوان نسل سے کوئی تربیت یافتہ سْیاسی لیڈر نکل آئے، اس قوم میں تعلیم یافتہ یا ڈگریوں یافتہ کے ساتھ ساتھ ہمیں شعود سے لیس تربیت یافتہ نوجْوان مل جائے، ایک بار پھر سپریم کورٹ نے 1993 میں اس پر دوبارہ پابندی عائد کردی اور وہ پابندی آج تک بھی برقرار ہے۔
بے نظیر بھٹو کی اس حکومت کے بعد اب تک یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ اب تک جتنے حکومت آئے ہوئے ہیں یہ جمہوری حکومت تھے یا کسی جنرل یا کرنل کا سایہ ان کے سر پر تھا، لیکن کسی بھی حکومت نے طلباء یونین کو بحال کرنے کیلئے کوئی کردار ادا نہیں کیا ملکی لیول پر۔
دسمبر 2019 سندھ حکومت کی صوبائی کابینہ نے طلبہ یونینز پر پابندی ہٹانے کی منظوری دے دی لیکن اس قانونی ڈرافٹ کی سندھ اسمبلی سے منظوری اب تک باقی ہے میرے خیال میں۔
اس وقت ضیا کو طلباء سے اسلئے ڈر تھا کہ طلبہ بہت نظریاتی ہوا کرتے تھے اور طالب علموں کو خاص کر نظریاتی طالب علموں کو خریدنا ناممکن نہیں بلکہ مشکل ہوجاتا ہے اسلئے ضیا نے یہ نہیں چاہا کہ طلبہ سْیاست کریں اور وہ سْیاست کے پیچیدگیوں کو سمجھ سکیں، اس کے علاوہ ضیا نے بنگلہ دیش کی طلبا سے سبق سیکھ لی تھی کہ طلبا سْیاست کیسے قومی سْیاست پر اثر انداز ہوئی تھی اور اس وقت اسٹیبلسمنٹ میں اتنی دم بھی نہیں تھی کہ وہ ایسا کوئی رسک لے کیونکہ اس وقت ملک ٹوٹا تھا۔
اور وہ ضیا اب تک ہم طلباء پر حکمرانی کررہا ہے، اب تک طلباء یونینز پر پابندی عائد ہے، لیکن طلبہ بے بس لاچار مجبور اپنا سمسٹر پاس کرنے کی چکر میں زندگی گُزار رہے ہیں۔
جب 2019 میں میری ایڈمیشن لا کالج میں ہوئی تو ہمیں ویلکم پارٹی اسلئے نہیں دی گئی کہ لا کے اسٹوڈنٹس بدمعاش ہوتے ہیں، اور یونیورسٹی کا ماحول ایسی بنائی گئی تھی( جس طرح 14 اگست 1947 کو برطانیہ نے برصغیر کو مذہب کے نام بانٹ دیا اور 14 اَگست کو پاکستان بنایا اور 15 اگست کو انڈیا کو یہ دونوں قومیں خوش ہوگئے کہ ہم برطانیہ کی غلامی سے آزاد ہوگئے لیکن حقیقی معنوں میں برطانیہ اس وقت اتنی کمزور پڑ گئی تھی کہ وہ کسی اور ملک کو اپنا کالونی نہیں بنا سکتا تھا، اور ویسے ہی جنگ عظیم دوئم کے بات کالونیل ازم ایک لحاظ سے ختم ہوچکی تھی اور اس کی جگہ نیو کالونیل ازم آگئی تھی، کالونیل ازم سے مراد کسی اور کی زمین میں فزیکلی رہ کر وہاں کے لوگوں پر حکمرانی کرنا، اور نیو کالونیل ازم کا مطلب ہے کسی قوم کی معاشی سْیاسی اور کلچر نظام کو اپنے ہاتھوں میں لیکر اس کے اوپر پریشر کِریٹ کرنا، اور آج امریکہ پہلے ورلڈ بینک کے نام سے کرتا تھا اور اب آئی ایم ایف کے زریعے کررہا ہے) اور میں بھی اسی طرح خوش تھا جس طرح پارٹیشن کے دوران مسلمان اور ہندو خوش تھے کہ ہمیں الگ الگ ملک مل گیا ہے اور میں خوش تھا کہ کسی یونیورسٹی میں داخلہ مل گیا۔
جس طرح پاکستان میں سچ بولنا سچ لکھنا سچ کا ساتھ دینا جرم ہے اسی طرح یہاں بھی ایسا ہی ماحول ہے آپ سوشل نہیں ہوسکتے یونیورسٹی کے اندر کوئی اسٹڈی سرکل نہیں لگاسکتے، کسی ایک لڑکی کے ساتھ بیٹھ نہیں سکتے ، ایسی کوئی بھی چیز آپ سے سرزد ہوئی تو آپ لوگ پاکستان میں رہ رہے ہو اتنا تو تجربہ ہوا ہوگا کہ سیکورٹی کتنا سخت ہے اور اتنی جلدی پہچ جاتی ہے کہ سیکنڈ کا سوئی بھی ہلنے کی جُرت نہیں کرسکتا ہے۔
یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ یونیورسٹی کے اندر طلبہ کو سْیاست کرنے اسلئے نہیں چھوڑ رہے ہیں کہ یونیورسٹی انتظامہ خود سْیاست(یہاں سْیاست کا مطلب کچھ اور ہے) کرے، کبھی کبھی یونیورسٹی کے اندر ایسے لابنگ نظر آتی ہے پورا روس کا سوشلزم اور امریکہ کا ایمپریلزم آمنے سامنے ہورہے ہیں، جس طرح امریکہ اور روس کا کولڈ وار چلتا ہے، اسی طرح طلبہ اور ٹیچر کے اندر ایسا ہی ہے، ٹیچر کلاس کے اندر آکر انڈارکٹ ایسے دھمکیاں دیتی ہیں جیسے کہ اس کے راستے کے رکاوٹ ہم طلبہ ہیں۔
میں یہ مانتا ہوں کہ طلبہ آج بھی بے بس لاچار ہیں شاید تب تک رہے گا جب تک اسٹوڈنٹس یونینز بحال نہ ہوجائیں، لیکن آج چمتکار ہوگیا کہ یونیورسٹی انتظامہ بھی ہماری طرح بے بس ہوگیا اور خان( عمران خان ) نے یونیورسٹی کے اندر دبنگ انٹری مارکر اپنے کچھ کھوکھلے م لفظوں کو قوم کے کھوکھلے مستقبل کو سنا کر چلا گیا،اور یونیورسٹی انتظامہ بے بس لاچار۔
طلباء یونین نہ ہونے نقصانات کیا ہیں؟
1: اگر تعلیمی اداروں میں طلباء یونینز ہوتے انتظامہ کبھی بھی اتنی من مانی نہیں کرتا۔
2: پاکستان کے تمام تعلیمی اداروں میں حراسمنٹ ختم ہوجاتی، کوئی بھی ٹیچر ایسا جُرت نہیں کرسکتا۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں