صحافت اور اخلاقیات ۔ امجد دھوار

610

صحافت اور اخلاقیات 

تحریر: امجد دھوار

دی بلوچستان پوسٹ

کسی بھی معاملے کے بارے میں تحقیق کرنا اور اسے اپنے قارئین، سامعین اور ناظرین تک بغیر کسی مبالغہ آرائی کے پہنچانا صحافت کہلاتا ہے اور اس کام سے وابستہ لوگوں کو صحافی کہتے ہیں، صحافت سے وابستہ لوگ عوام کو خبروں سے با خبر رکھتے ہیں۔

اخلاقیات ایک ایسا نظام ہے جو ایک خوشگوار زندگی کی طرف ہمارے رویہ کو تشکیل دیتا ہے اخلاقیات کے ذریعے ہم ایمانداری کی زندگی بسر کر سکتے ہیں۔

صحافت ہماری زندگی میں ایک اہم قیادت کا درجہ رکھتی  ہے صحافت  کسی قوم کی  تعمیر میں  اہم کردار ادا کرتا ہے جو کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔

اخبارات کی ابتداء کاغذ کی ابتداء کے بعد ہوئی ویسے ما قبل تاریخ کے زمانے سے ہی انسان خبروں کی ترسیل مختلف انداز میں کرتا رہا ہے ۔ ہزاروں سال قبل بھی انسان دشمن سے بچنے کی تدبیریں نکالتا اور دھواں وغیرہ کے ذریعہ اطلاعات کی ترسیل کرتا تھا۔ چین میں سب سے پہلے کاغذ ایجاد کیا گیا اس کے بعد اخبارات کا وجود عمل میں آیا ہندوستان میں اخبارات کی تاریخ ڈھائی سو سال پرانی سمجھی جاتی ہے انگریزوں کی آمد سے ہی اخبارات کی آمد ہوئی اور اٹھارویں صدی کی ابتداء میں ہندوستان سے پہلا اخبار شائع ہوا جس کے ایڈیٹر نامہ نگار اور سب کچھ ایک ہی شخص تھا جسے انگریزوں نے نوکری سے بے دخل کر دیا تھا۔

اخبارات شروع میں خبروں کے لیے محدود ذرائع سے استفادہ کرتے تھے دور دراز کی خبریں آہستہ آہستہ آتی تھیں جب کہ مقامی خبریں مخبر خبری وغیرہ کے ذریعہ سے حاصل کی جاتی تھیں ان خبروں کی تصدیق لازمی جز تھا جس کے لیے بغیر خبری کو مطلع کئے دوسرے خبری کو بھی اسی خبر کی تحقیق کے لیے روانہ کیا جاتا تھا اور دونوں کی خبروں میں اگر تضاد نہ ہوتا تو اس کو صحیح تسلیم کر لیا جاتا اور اس کو شائع کیا جاتا تھا۔یعنی سَچی خبریں لوگوں تک پہنچانا صحافی کی اخلاقیات کا پہلا نکتہ ہے جس تک پہنچنے کے لیے صحافی کو بھرپور کوشش کرنی چاہئے اور پوری اطمینان کے ساتھ ہی کسی اطلاع کو خبر بناکر پیش کرنا چاہئے تاکہ وہ نادانستہ طور پر کسی پروپیگنڈہ کے پھیلاؤ کا ذریعہ نہ بنے۔ آج کے زمانے میں صحافی کو کسی خبر کی تصدیق مختلف ذرائع سے کرنی چاہئے مختلف آراء اور مصدقہ اطلاع نہ ہونے کی صورت یہ صحافی کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ مختلف آراء یا واقعات کے متضاد پہلو بھی عوام کے سامنے رکھے۔

موجودہ وقتوں میں جب ہم مختلف نیوز چینلوں پر چند ایک ایسے صحافیوں کو دیکھتے ہیں جن کے لفظو ں سے زیادہ آنکھوں سے شعلے نکل رہے ہوتے ہیں۔ جن کی گفتگو سن کر یہ احساس  ہوتاہے کہ کیا یہ مذکورہ چینل کا مالک ہے اگر نہیں تو کیا اس چینل کے مالک کو کوئی فرق نہیں پڑتا کہ اس کے چینل میں بیٹھ کر من گھڑت اور جگ بیتی کہانیاں سنائی جارہی ہیں؟ یقینا ان نیوز چینلوں کے مالکان کے اپنے مفادات بھی ہوتے ہیں یہی وجہ ہے ان چینلوں میں بیٹھے خودکار صحافیوں کی ایک فوج اپنے ناپسندیدہ حکمرانوں پر طنز کے نشتر برساتے رہتے ہیں۔ ایسے حضرات کسی سیاسی لیڈر یا سیاسی جماعت سے مکمل طورپر منسلک ہوچکے ہوتے ہیں یہی وجہ ہے کہ وہ ایک ہی قسم کی ڈفلی بجاتے رہتے ہیں  اور اپنی گفتگو میں ٹھوس معلومات کی بنیاد پر تجزیہ  کرنے کی بجائے   اپنے قائد یا جماعت کی مداح سرائی کرتے ہیں یا پھر اس کے مخالفین کی مذمت کرتے ہیں۔اس طرح کے نیوزچینلز کے لیے کسی بھی تبصرہ نگاریا تجزیہ نگار کا صحافی ہونا ضروری نہیں ہے جس کا بھرپور فائدہ اٹھایا جارہاہے ،معاشرے کی تیسری آنکھ اور جمہوریت کا چوتھا ستون آج جس مشکل میں گرفتار ہے اسے ان میڈیا ہائوسسزکے مالکان اپنی ناکامی کی بجائے کامیابی سمجھتے ہیں کیونکہ ان کا مقصد اب صحافت نہیں بلکہ بزنس بن چکاہے جو دن رات ترقی کررہاہے،آج پیسوں کی خاطر اور تعلق داری پر تعریفیں کرنے کا نام صحافت بن چکاہے،آج کی صحافت سیاستدانوں کی انتخابی مہم کا ذریعہ بن چکی ہے۔

صحافت کا اہم مقصد دنیا بھر کی تازہ ترین صورتحال سے واقف کرواناہے مگر آج کا صحافی دلیل دینے کی بجائے فیصلہ کرنے لگا ہے آج کی صحافت نے اپنی ایک عدالت قائم کرلی جہاں وہ اچھے اور برے سیاستدانوں کی زندگیوں کے فیصلے کرتے ہیں۔ آج صحافیوں کی صحافت کا باب بند ہوچکاہے ان کا قلم تھم چکاہے کوئی بھی آدمی جو خود کو صحافی کہتا ہے وہ ان مرحوم صحافیوں کے نقش قدم پر چلنے کو تیار نہیں اور جو چلنا چاہتے ہیں ان کا مذاق بنایا جاتا ہے ۔ ایک زمانہ تھا کہ یہی صحافی نہایت سخت جان ہوا کرتے تھے،کیسی ہی مشکل سر پر کیوں نہ آتا وہ اپنے فرائض کی ادائیگی میں نہ تو جھکتے اور نہ ہی کوئی مجبوری اس کی قلم کو خریدسکتی تھی ،اس زمانے میں صرف چند روزنامے ہی نکلا کرتے تھے جن میں کام کرنے والے صحافی نایاب انسانوں کی طرح مانے جاتے تھے۔

آج کل انٹرنیٹ کے دور میں صحافت کے طریقے بدل گئے ہیں جرنلزم یعنی آن لائن صحافت موجودہ دور میں اردو زبان کے لیے بھی کوئی نئی بات نہیں رہی ہے گلوبل ولیج یا گوگل ایج کے دور کا صارف آج کسی نشریاتی ادارے یا اخباری ایجنسی کا قیدی نہیں رہا ہے۔ وہ براہ راست انٹرنیٹ کے کسی سرچ انجن کے سہارے مطلوبہ مواد اپنے مطالعے یا اضافۂ معلومات کی خاطر حاصل کر لیتا ہے چاہے وہ داعش جیسی انتہا پسند تنظیم سے متعلق مواد ہو، یا مسلم دنیا کی کشمکش کی صورتحال یا برصغیر کی سیاست و سماجیات کے اتار چڑھاؤ کے مسائل ہوں یا کھیل و تفریح کی دنیا کی خبریں ہوں۔ دنیا کا کوئی موضوع ایسا نہیں جسے کی۔بورڈ یا موبائل کے ذریعے چند الفاظ کو لکھ کر اس سے متعلق تازہ ترین خبر یا معلومات حاصل نہ کی جا سکیں روایتی صحافت کے مقابلے میں آن لائن جرنلزم نے زبان کا مسئلہ بھی بڑی حد تک ختم کر دیا ہے گوگل ٹرانسلیٹ کی مدد سے دیگر زبانوں یا معاشروں کے اصل مواد تک پہنچتے ہوئے کسی موضوع کے حقائق کا علم حاصل کیا جا سکتا ہے ۔ یعنی کسی خبر کی سرخی کے انگریزی الفاظ کا متعلقہ زبان میں ترجمہ اور پھر اس ترجمے کی سرچ انجن تلاش کے ذریعے اس معاشرے یا ملک کی متعلقہ خبروں کا گوگل ترجمہ ہی کے توسط سے مفہوم حاصل کیا جا سکتا ہے۔

صحافت کی اخلاقیات کی ایک اہم خصوصیت رپورٹنگ ہے یعنی حالت و واقعات کو بالکل صحیح طریقے سے بیان کرنا جیسا کے واقعہ رونما ہوتا ہے بالکل اسی طرح سے بیان کرنا۔سب سے زیادہ نا قابل اعتبار صحافی وہ ہے جو یک طرفہ رپورٹنگ کرتا ہو صحافت کا ایک اخلاقی فریضہ یہ ہیکہ عوام کیساتھ ہونے والی ظلم زیادتیوں کو انصاف کی فراہمی کا کردار ادا کریں وہ عوامی مثائل جو حل نہیں ہوتے ان کو اجاگر کرنے کی کوشش کریں اور عوام کو انصاف کی فراہمی میں اپنا مثبت کردار ادا کریں اور جو مثائل حل نہیں ہوتے ان کو زیادہ سے زیادہ اجاگر کرنے کی کوشش کریں۔ ان تمام باتوں سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ صحافت ایک مقدص پیشہ ہے اور اس میں وہی لوگ کامیاب ہوتے ہیں جو اسے ایک فرض اور نیکی سمجھتے ہے میر ے خیال میں صحافت کے معیار پر پورا اترنے کے لیے آپ کو صحافت کے اصولوں کے بارے میں جان لینا چاہئے۔

صحافت میں ان لوگوں کے لیے کوئی گنجائش نہیں جو نوسرباز ہوتے ہیں اصل صحافی وہ ہوتا ہے جو کسی کو بلیک میل کرنے سے کتراتا ہو ۔ صحافت کو ممکنہ حد تک  ایمانداری سے کیا جائے یہ صحافت کا سب سے بڑا معیار ہے۔

امریکہ میں جوزف یلٹر وہ پہلا شخص تھا جس نے کہا تھا:  ”صحافی بطن مادر سے نہیں درسگاہوں سے پیدا ہوتے  ہیں۔” یعنی صحافی محض اپنی دانش اور سوجھ بوجھ پر ہی اکتفا نہیں کرتا بلکہ اسے زبان و کلام پر مہارت حاصل کرنے کے لیے ہمیشہ مطالعہ کرنا چاہئے ۔

صحافت کو معاشرے کی تیسری آنکھ اور جموریت کا چوتھا ستون مانا جاتا ہے سماج کی اچھائیاں اور بھرائیاں صحافت کے ذریعے سامنے آتی ہیں۔ آذادی کے جذبے کو فروغ دینا اور عوامی مشکلات و مسائل سامنے لانا صحافت کا فریضہ ہے عوام میں فکر کی صلاحیت پیدا کرنا تعلیم عزت ایماندری قائم کرنا اور ان کے خیالات و احساسات کی ترجمانی کرنا اور ان کے مسائل کو حل کرنا اور قوم کا ساتھ دینا یہ سب صحافت کے فرائض میں شامل ہیں۔

صحافی کی زندگی میں کئی موڑ آتے ہیں جہاں اس کے لئے سچ بولنا اور سچ لکھنا خطرے سے خالی نہیں ہوتا اور سچا صحافی بھی وہی ہوتا ہے جو ہر حال میں سچ کا ساتھ دے ۔

وہ صحافی جو اپنے ذاتی مفادات کی خاطر کام کرے اور منفی آلہ کاروں کا ساتھ دے وہ صحافی صحافت کے نام پر ایک کالا ٹیکا ہے مفادات سے پاک اور ایک آذاد صحافی ہی ایک سچا صحافی ہوتا ہے صحافی اپنے پیشے کے ساتھ سچا ہو تو اس کا ہر ایک لفظ اثر رکھتا ہے لیکن جب وہ مفادات کی خاطر اپنے قلم اور ضمیر کو بیچ دے تو اس کی چیخیں اور سچائیاں بے اثر ہوتی ہیں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں