عراق میں حریف شیعہ کیمپوں کے درمیان طویل عرصے سے جاری اقتدار کی کشمکش رواں ہفتے سڑکوں پر خونریز تشدد کی شکل اختیار کر گئی جو کئی مہینوں سے جاری کشیدگی اور سیاسی تعطل کا نقطۂ عروج ہے۔
طاقتور عالم دین مقتدیٰ الصدر کے وفاداروں نے ملک کے سرکاری گرین زون کو فرنٹ لائن میں تبدیل کر دیا اور سکیورٹی فورسز اور حریف ملیشیا کے ساتھ فائرنگ کے تبادلے سے دارالحکومت کو 24 گھنٹوں تک مفلوج کر دیا۔
منگل کو مقتدیٰ الصدر کی تقریر میں ایک لفظ یعنی ’انخلا‘ کے ساتھ ہی لڑائی رک گئی۔ اس کے حامیوں نے اپنے ہتھیار نیچے رکھے اور چلے گئے۔
یہ اس عالم دین کا مقتدیٰ الصدر کے ایرانی حمایت یافتہ حریفوں اور سیاسی اشرافیہ کے لیے پیغام اور اس نقصان کی خطرناک مثال تھی جو اس کے پیروکار اس ملک کو پہنچانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
ان کے انخلا کے اعلان کے بعد نگران وزیر اعظم سمیت عراقی رہنماؤں نے مقتدیٰ الصدر کا شکریہ ادا کیا اور ان کے تحمل کی تعریف کی۔
مقتدیٰ الصدر سڑکوں پر بدامنی کے لیے اپنے پیروکاروں کو حکم دے سکتے ہیں اور اسی طرح انہیں واپس جانے کا بھی کہہ سکتے ہیں۔ انہوں نے طویل عرصے سے اپنا سیاسی اثر و رسوخ اسی صلاحیت سے حاصل کیا ہے۔
پیر کو انہوں نے اعلان کیا کہ وہ سیاست چھوڑ دیں گے۔ ان کے اس اعلان نے عراقیوں کو یہ دکھا دیا کہ جب ضبط کی وہ آواز چھین لی جائے تو کیا ہو سکتا ہے: انتشار، تباہی اور موت۔
مظاہرے اور شدید جھڑپیں رک گئی ہیں جن میں اب تک 30 افراد ہلاک اور 400 سے زائد زخمی ہو چکے ہیں۔ لیکن وہ سیاسی تعطل ابھی تک ختم نہیں ہوا جس کی وجہ سے بدامنی کا یہ باب آن پہنچا ہے۔
تو، مقتدیٰ الصدر چاہتے کیا ہیں اور کیا کبھی عراق کا بحران کا ختم ہو گا؟
مقتدیٰ الصدر کون ہیں؟
مقتدیٰ الصدر عوام کے پسندیدہ عالم دین ہیں جو 2003 کے حملے کے بعد عراق پر امریکی قبضے کے خلاف مزاحمت کی علامت کے طور پر ابھرے۔ انہوں نے ایک ملیشیا مہدی فوج تشکیل دی جو بالآخر ٹوٹ گئی اور اس کا نام سریا سلام یعنی امن بریگیڈز رکھ دیا۔
انہوں نے خود کو امریکہ اور ایران دونوں کے مخالف کے طور پر پیش کیا اور خود کو اصلاحات مخالف ایجنڈے کے ساتھ ایک قوم پرست بنا لیا ہے۔
درحقیقت وہ اہم سرکاری ملازمین کی تقرریوں کے ذریعے عراق کے ریاستی اداروں میں گہرا اثر و رسوخ رکھنے والی اسٹیبلشمنٹ شخصیت ہیں۔
مقتدی الصدر کو زیادہ تر توجہ اپنی خاندانی وراثت کی وجہ سے ملتی ہے۔ وہ آیت اللہ محمد صدق الصدر کے بیٹے ہیں جنہیں 1999 میں صدام حسین کے خلاف تنقیدی موقف کی وجہ سے قتل کر دیا گیا تھا۔ ان کے بہت سے پیروکاروں کا کہنا ہے کہ وہ ان کے لیے وقف ہیں کیونکہ وہ کبھی ان کے والد کے عقیدت مند تھے۔
انہوں نے بالآخر کار سیاست میں قدم رکھا اور اپنے حریفوں پر سیاسی برتری کے لیے اپنے پیروکاروں کو اکثر بلا کر غیر متوقع اور ڈرامائی ہونے کی وجہ سے شہرت حاصل کی۔
ان کی طاقتور بیان بازی مذہب سے متاثر تھی اور حق رائے دہی سے محروم ہونے کی وجہ سے انقلاب کے مطالبات ان کے دل کی گہرائیوں سے گونج رہے تھے۔
ان حکمت عملیوں کے ذریعے وہ ایک طاقتور کھلاڑی بن گئے ہیں جس کی توجہ نچلی سطح پر عراق کے سب سے غریب حلقوں پر مرکوز ہے۔ گرین زون پر دھاوا بولنے والے ان کے بیشتر پیروکار بے روزگار تھے اور مورد الزام عراقی سیاسی اشرافیہ کو ٹھہراتے تھے۔
مقتدیٰ الصدر کی جماعت نے اکتوبر 2021 کے پارلیمانی انتخابات میں سب سے زیادہ نشستیں حاصل کیں لیکن وہ حکومت میں اکثریت حاصل کرنے کے لیے کافی نہیں تھیں۔
انہوں نے حکومت بنانے کی غرض سے ایران کے حمایت یافتہ شیعہ حریفوں کے ساتھ مذاکرات سے انکار کیا جس کی وجہ سے عراق میں ایک غیر معمولی سیاسی تعطل پیدا ہو گیا۔
مقتدیٰ الصدر کے پیروکار کیا چاہتے ہیں؟
سیاسی بحران جولائی میں اس وقت بڑھ گیا جب الصدر کے حامی پارلیمنٹ میں گھس گئے اور ان کے حریفوں کو کوآرڈینیشن فریم ورک میں حکومت بنانے سے روکنے کی کوشش کی، جو زیادہ تر ایران کی حمایت یافتہ شیعہ جماعتوں کا اتحاد ہے۔
سینکڑوں افراد نے چار ہفتوں سے زیادہ عرصے تک عمارت کے باہر جاری دھرنا دیا۔ جب وہ اپنے حریفوں کو نکال باہر کر دینے والی حکومت بنانے کے لیے کافی قانون سازوں کو تیار نہ کر سکے تو انہوں نے اپنے بلاک کو اپنی پارلیمانی نشستوں سے مستعفی ہونے کا حکم بھی دیا اور قبل از وقت انتخابات اور پارلیمنٹ کی تحلیل کا مطالبہ کیا۔
اس اعلان کو ان کے پیروکاروں نے قبول کیا جن میں سے بہت سے لوگ عرصہ داز سے حکمران اشرافیہ کے ہاتھوں اپنے آپ کو پسماندہ محسوس کر رہے ہیں۔
بغداد کے نواحی علاقے صدر شہر میں جہاں مقتدیٰ الصدر کے پیروکار بہت زیادہ ہیں، زیادہ تر ناکافی بنیادی سہولیات کی شکایت کرتے ہیں جن میں شدید گرمی میں بجلی بھی شامل ہے۔ اکثریت کی جڑیں جنوبی عراق کی دیہی برادریوں میں ہیں اور ان کی تعلیم بہت کم ہے۔ زیادہ تر کو کام تلاش کرنے میں بہت بڑے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
جولائی میں پارلیمنٹ اور پیر کو سرکاری محل پر دھاوا بولنے والوں میں زیادہ تر وہ نوجوان تھے جن کے لیے عراقی اقتدار کے ایوانوں کی اندر سے یہ پہلی جھلک تھی جہاں انہیں شاذ و نادر ہی جانے دیا جاتا ہے۔
طبقاتی تقسیم اور تاریخی بے دخلی کی وجہ سے برہم مقتد الصدر کے پیروکاروں کا خیال ہے کہ یہ عالم دین ایک ایسے سیاسی نظام میں انقلاب برپا کر دے گا جس نے انہیں بھلا دیا ہے۔
لیکن درحقیقت عراقی اقتدار میں حصہ داری کے سیاسی نظام میں الصدر کے پاس نمایاں طاقت اور غلبہ ہے۔
اتنی خطرناک جھڑپیں کیوں ہیں؟
پیر کو ہونے والی جھڑپیں عراق میں جنگ کو سڑکوں پر لے آئیں اور یہ اگلی حکومت کی تشکیل پر مقتدیٰ الصدر اور ایران کے حمایت یافتہ شیعہ کیمپ کے درمیان کئی ماہ سے جاری سیاسی کشیدگی اور اقتدار کی کشمکش کا نتیجہ تھیں۔
کوآرڈینیشن فریم ورک میں مقتدیٰ الصدر کے حریفوں نے اس بات کے آثار دکھائے ہیں کہ وہ قبل از وقت انتخابات کے خلاف نہیں ہوں گے لیکن دونوں کیمپ اس طریقہ کار پر متفق نہیں ہیں۔
عدلیہ نے مقتد الصدر کا پارلیمنٹ تحلیل کرنے کا مطالبہ غیر آئینی قرار دے کر مسترد کر دیا ہے۔
سیاسی تعطل کی وجوہات کی تاحال موجودگی کی وجہ سے پھر تنازعہ پیدا ہو سکتا ہے۔ حریف شیعہ کیمپوں کے درمیان نیم فوجی دستوں کی طویل مسلح لڑائی عراق کے استحکام کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے۔
یہ دارالحکومت کے باہر اس وقت ہوا جب پیر کی رات گرین زون میں جھڑپیں ہوئیں۔ مقتد الصدر کی وفادار ملیشیا کے افراد نے جنوبی صوبوں میں ایرانی حمایت یافتہ ملیشیا گروپوں کے صدر دفتر پر دھاوا بول دیا۔ اس اقدام کی وجہ سے ماضی کی طرح ’ادلے کا بدلہ‘ کی طرز پر جھڑپیں بڑھ سکتی تھیں۔
یہ ایک ایسا منظر نامہ ہے جس سے ہمسایہ ملک ایران جو عراق میں بہت زیادہ اثر ورسوخ رکھتا ہے، سب سے زیادہ خوفزدہ تھا۔
ایرانی حکام بشمول ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے بار بار شیعہ اتحاد کا مطالبہ کیا ہے اور الصدر کے ساتھ بات چیت کی کوشش کی ہے۔
لیکن ایرانی حمایت یافتہ گروہوں کے بغیر حکومت بنانے کے پرعزم اس عالم دین نے انکار کر دیا ہے۔
عراق کی اکثریتی شیعہ مسلم آبادی کے ارکان پر اس وقت ظلم کیا گیا جب صدام حسین نے کئی دہائیوں تک ملک پر حکومت کی۔ 2003 میں امریکی قیادت میں ہونے والے حملے نے صدام حسین کو معذول کر دیا جو ایک سنی تھے اور انہوں نے سیاسی نظام کو الٹ دیا تھا۔ عراق کا دو تہائی حصہ شیعہ ہے او ایک تہائی سنی۔
اب اقتدار، اثر و رسوخ اور ریاستی وسائل کے حصول کے لیے عراقی قوم پرست اور ایرانی حمایت یافتہ شعیہ آپس میں لڑ رہے ہیں۔