بغداد میں خونریز مسلح جھڑپیں کیسے شروع ہوئیں؟

332

عراق میں حریف شیعہ کیمپوں کے درمیان طویل عرصے سے جاری اقتدار کی کشمکش رواں ہفتے سڑکوں پر خونریز تشدد کی شکل اختیار کر گئی جو کئی مہینوں سے جاری کشیدگی اور سیاسی تعطل کا نقطۂ عروج ہے۔

طاقتور عالم دین مقتدیٰ الصدر کے وفاداروں نے ملک کے سرکاری گرین زون کو فرنٹ لائن میں تبدیل کر دیا اور سکیورٹی فورسز اور حریف ملیشیا کے ساتھ فائرنگ کے تبادلے سے دارالحکومت کو 24 گھنٹوں تک مفلوج کر دیا۔

منگل کو مقتدیٰ الصدر کی تقریر میں ایک لفظ یعنی ’انخلا‘ کے ساتھ ہی لڑائی رک گئی۔ اس کے حامیوں نے اپنے ہتھیار نیچے رکھے اور چلے گئے۔

یہ اس عالم دین کا مقتدیٰ الصدر کے ایرانی حمایت یافتہ حریفوں اور سیاسی اشرافیہ کے لیے پیغام اور اس نقصان کی خطرناک مثال تھی جو اس کے پیروکار اس ملک کو پہنچانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

ان کے انخلا کے اعلان کے بعد نگران وزیر اعظم سمیت عراقی رہنماؤں نے مقتدیٰ الصدر کا شکریہ ادا کیا اور ان کے تحمل کی تعریف کی۔

مقتدیٰ الصدر سڑکوں پر بدامنی کے لیے اپنے پیروکاروں کو حکم دے سکتے ہیں اور اسی طرح انہیں واپس جانے کا بھی کہہ سکتے ہیں۔ انہوں نے طویل عرصے سے اپنا سیاسی اثر و رسوخ اسی صلاحیت سے حاصل کیا ہے۔

پیر کو انہوں نے اعلان کیا کہ وہ سیاست چھوڑ دیں گے۔ ان کے اس اعلان نے عراقیوں کو یہ دکھا دیا کہ جب ضبط کی وہ آواز چھین لی جائے تو کیا ہو سکتا ہے: انتشار، تباہی اور موت۔

مظاہرے اور شدید جھڑپیں رک گئی ہیں جن میں اب تک 30 افراد ہلاک اور 400 سے زائد زخمی ہو چکے ہیں۔ لیکن وہ سیاسی تعطل ابھی تک ختم نہیں ہوا جس کی وجہ سے بدامنی کا یہ باب آن پہنچا ہے۔

تو، مقتدیٰ الصدر چاہتے کیا ہیں اور کیا کبھی عراق کا بحران کا ختم ہو گا؟