بلوچ سماج میں ادب کی اہمیت۔ حصہ (اول) ۔سگار جوھر

411

بلوچ سماج میں ادب کی اہمیتحصہ (اول)

تحریر:سگار جوھر

دی بلوچستان پوسٹ

بات ادب اور بلوچ سماج کی ہوتی ہے تو سمجھنا ہوگا کہ صرف بلوچ نہیں بلکہ ہر محکوم قوم کا ادب اپنی اپنی جگہ ایک الگ مقام و اہمیت رکھتا ہے ، جسے ہم مابعد نوآبادیاتی ادب کے نام سے جانتے ہیں۔ ادب اور سماج کو الگ نہیں دیکھ سکتے اس لیے بعض ادیبوں کا کہنا ہے کہ ادب سماج کا آئینہ ہے اور حقیقی چہرہ کی نمائندگی کرتا ہے، ادب وقت و حالات کو موضوع کی شکل میں پیش کرتا ہے، ادب چشم دید گواہ ہے کہ سماج میں کیا کیا ہوا تھا اور کیا کیا ہو رہا ہے، ادب محکوم قوموں کے اندر جذبات و احساسات اور جدو جہد کی تیاری کا درس دیتا ہے، ادب ضمیر کو جگاتا ہے، ادب انسان کو حوصلہ بخشتا ہے ادب چاند کی طرح سماج کو روشنی دیتا ہے، اور ادب کہانیوں کی شکل میں لوگوں کی زندگیاں سنھبالتا ہے، اور شاعری کی شکل میں لوگوں کے جذبات کوزندہ کردیتا ہے، ادب تاریخ کو خوبصورت شکل دیتا ہے ادب زندگی کا درس دیتا ہے۔

بلوچ سماج میں بہت سارے مشہور شاعروں، اداکاروں ، لکھاریوں اور ناول نگاروں کی فہرست ہے ،لیکن ان کے کرداروں کو صحیح طریقے (تجربی تنقید ) کے بعد سُراغ ملتا ہے کہ ان کے موضوعات کس چیز پر ہیں،، کوئی شک نہیں کہ ایسے سماج میں لوگ شاعروں کی لکھی ہوئی شاعری کو دیکھ کر متاثر ہوتے ہیں، لیکن ایک ادیب کو پتہ لگنا چاہیے کہ شاعر کو کیسا ہونا ہے؟ کس سماج کی بات کرنا چاہیے، کونسے لوگوں کی بات ہونا چاہیے، اس کا فیصلہ ادب خود کرتا ہے۔

ادیب خود بخود ، غیبی طورپر نہیں بن جاتے، ادیب تب تک نہیں بنتے، جب تک وہ دھرتی کے ویرانگی یا خوبصورتی کو اپنی اندر میں جانچ نہ کرسکے۔ جب دھرتی ماں ، کے ہر گوشے گوشے جنگل ، و بیابانوں کی عکس اپنی اندر جذب نہ کرسکے۔

دھرتی ماں کے فرزندوں کی آہ و فریاد سے وقف نہ ہو ، اپنی قوم و انسانیت کی چیخ و پکار کو محسوس نہ کرسکے ، یا اپنی قوم کے فرزندوں کی شجاعت و بہادری، کو بیان نہ کرسکے اور قوم کی نمائندگی کرنے سے ہچکچاہٹ محسوس کرے ۔

ادیب وہ ہیں جو حقیقی معنوں میں اپنے قلم کو استعمال کرتے ہیں، اپنی قوم کی اجتماعی مقصد و مدعا بیان کرتے ہیں، وہ قوم کی ہر چیز سے واقفیت رکھتے ہیں اور ادیب صوفی اور حقیقی لوگ ہوتے ہیں۔

دوسری طرف یورپی ادب و سماج کو دیکھنا لوگوں کے لیے روز مرہ کا خوراک بن چکا ہے ، جہاں کہیں ادیبوں ، شاعروں ، لکھاریوں اور ناول نگاروں کے بارے میں بڑی بڑی کتابیں لکھی گئی ہیں۔

لیکن ان کتابوں میں ان محکوم قوموں کی زندگیوں کے بارے میں کسی جگہ کوئی ذکر موجود نہیں ہے۔ وجہ یہ ہے کہ یورپی تہذیب نے لوگوں کی اصل کہانی کو کسی حد تک مسخ کردیا ہے یا کوئی اور قالب میں ڈھالا گیا ہے ۔

جس کا واحد مثال ہمیں مابعد نوآبادیاتی لکھاریوں اور انقلابیوں کی تحریروں اور نوآبادیاتی نظام کی شکنجوں سے آزاد ہونے والی ملکوں کی تواریخ میں ملتے ہیں۔ لہٰذا جو شخص یورپ کی تہذیب سے متاثر ہوکر لکھنا شروع کردیتاہے تو ابھی بھی انہیں اپنا علاج بڑی اسپتال میں کرانا ہوگا تاکہ یہ مزید نہ پھیل جائے کیونکہ ایسی یعنی محکوم سماج کو سمجھنے اور ان کے حقیقی چہرے کو دنیا کے سامنے پیش کرنے کے لیے ضروری ہے، انسان اپنی نرگسیت، مختتم و خلفشار، ایڈونچرزم، جانب داریت ، مولوی والی کہانیوں سے دور رہ کر لکھنا شروع کریں تو ایک کھنڈر کو سبز باغ کی شکل دے سکتے ہیں۔

جہاں کہیں محکوم قوم کے پوسٹ کالونیل لکھاری لکھتے ہیں تو وہ پہلے اپنے اندر کے جراثیم کو اکھاڑ پھنکتے ہیں ۔

پھر جاکر اپنے قوم اور دیش کی نمائندگی کرنے لگتے ہیں۔ تب ادب ایک مکمل خوبصورت اور دلکش حقیقی چہرہ اور آئینہ بن سکتا ہے ۔ اگر ہم کچھ پوسٹ کولونیل لکھاریوں کی مثالیں دیں تو سارتر، فینن، کوٹسکی، فرائرے، گرامشی، ایڈورڈ سعید اور بہت سارے ہیں، اور بلوچ سماج میں پہلے اور آج کی لکھاریوں کی بات کی جائے تو ڈاکٹر جلال، برزکوہی، یوسف عزیز مگسی، مہرجان ، حنیف شریف، صورت خان مری ہیں۔ ویسے بہت زیادہ لکھاریوں کی لکھی ہوئی کتابیں اور تحریروں کی بڑی تعداد موجود ہے لیکن مطالعہ کرنے والوں کی تعداد اتنا نہیں جتنا وہ لکھتے ہیں۔

وجہ نوآبادیاتی لکھاریوں کی ایک بڑی تعداد بلوچ سماج کو مختلف narratives اور discourses کی طرف متوجہ کرنے لگے ہیں تاکہ لوگوں کے خیالات و جذبات ایک محدود دائرے کے اندر رہ کر نوآبادیاتی نظام کو برقرار رکھنے میں مدد کے ساتھ ساتھ فوج اپنی بنائی ہوئی اداروں کی مدد سے لوگوں کے اندر خوف و ہراس کا ماحول پیدا کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہا ہے۔

جیساکہ ایسے کتابوں اور فلسفیانہ مباحث کرنے والے موجود ہیں کہ وہ ہر چیز کو صحیح طریقے سے سمجھ چکے ہیں لیکن وہ خاموش ہیں۔اس خاموشی نے نئے ابھرنے والے لوگوں کو بھی متاثر کیا ہے، انہیں یہ بھی معلوم ہے کہ ایسی خاموشی قوم کو مزید اندھیرے میں ڈوبا سکتا ہے۔

آجکل کی دنیا کو ہم گلوبل ولیج “کے نام سے جانتے ہیں، جہاں انسان کی دوسرے انسان کے ساتھ آسانی سے اپنی اندرونی اور خارجی معاملات سے بات کرسکتا ہے۔ لیکن بلوچ سماج میں ہر انسان کو سمجھنا ہوگا کہ دوسرے ادیبوں کی لکھی ہوئی کتابوں کی خوبصورت الفاظ کی شکل ہمارے اندرونی معاملات کی عکاسی ہر جگہ نہیں کرتے ہیں ، ہمیں کچھ سوالات اور جوابات کے بارے میں آگاہی ضرور دیتے ہیں، ہمارے سامنے دنیا کی شکل کو تو دکھاتے ہیں ، لیکن ہم کوئی اور ہیں، ہماری طرزِ زندگی اُن سے بالکل الگ ہے۔

ہماری مائیں بھوک کی وجہ سے نہیں بلکہ وجود کو سنبھالنے کی وجہ سے اپنے بچے پیدا کرتے ہیں، ہماری سوچ کسان اور مزدوروں کے درمیان کا تضاد نہیں کہ گورکی کی ناول میں پاشا اور ان کے دوست کرتے ہیں، ہماری نمائندگی اس لیے نہیں کر سکتے ہیں کہ ہم کسی اور دھرتی کے باشندے ہیں، ہماری نمائندگی اس لیے نہیں کرسکتی ہیں کہ ہم طبقے کی بات نہیں کرتے کیونکہ طبقہ ہم پر مسلط کردی گئی ہے، جن سے ہمیں کوئی واستہ نہیں۔ بس چند ایسے خوبصورت الفاظ اپنے ریجن کے آب و ہوا یا اپنی علاقے کی خوبصورتی کو اپنی فنکاری کے قالب میں ڈھال کر اپنے ریجن کے کھیتوں ، پہاڑوں چٹانوں اور آبشاروں ؤ علاقائی قدرتی خوبصورتی کی توصیف کرتے نہیں تھکتے ہیں۔ ہماری نمائندگی ہمارے اپنی لکھاریوں کو کرنا چاہیے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں