اتوار کے روز بلوچستان کے ساحلی شہر گوادر میں بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل اور بی ایس او کے خواتین ارکان کی جانب سے احتجاجی ریلی نکالی گئی اور گذشتہ دنوں بلوچستان یونیورسٹی سے متعلق ہدایت الرحمان بلوچ کی نازیبا الفاظ پر اپنا احتجاج ریکارڈ کیا –
خواتین کی بڑی تعداد نے اس موقع پر بلوچستان میں جبری گمشدگیوں اور ایف سی کے خلاف بھی نعرے بازی کی –
اس موقع پر بی این پی کے مرکزی ایگزیکٹیو کمیٹی ممبر کہدہ علی، صدر بی ایس او گوادر زون ابوبکر کلانچی، جوائنٹ سیکریٹری سمی بلوچ، بی این پی گوادر خواتین سیکریٹری عارفہ عبداللہ اور دیگر نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مکران نے کبھی بھی توسیع پسندانہ رجعتی سوچ کو قبول نہیں کیا۔ مولانا نے لاپتہ افراد کا نام لیکر اپنا دھرنا دیا لیکن آج کے ڈیمانڈ چارٹر میں لاپتہ افراد کا نام ہی نہیں۔ جماعت اسلامی ہزاروں بنگالی خواتین و بچوں کا قاتل ہے۔ الشمس و البدر کے پیداوار بلوچ طلباء تنظیموں کے خلاف زہرافشانی کررہے ہیں-
انکا کہنا تھا کہ طلبا تنظیموں کے خلاف ہرزہ سرائی ریاستی ایجنڈہ کے تحت ہے۔ حالیہ تحریک کا مقصد قوم پرستی کہ سوچ کو ختم کرکے جماعت کو ہم پر مسلط کرنا ہے۔ بی ایس او نے ریاستی جبر کا مقابلہ کیا ۔ جماعت اسلامی کے بے بنیاد پروپگینڈہ کو قوم سمجھ چکی ہے-
مقررین نے کہا کہ بلوچستان یونیورسٹی مادر علمی ہے اور بلوچ طلباء کی پرورش کے مقدس مقام سے متعلق ہدایت الرحمان کی نازیبا کلمات یہاں کے علمی کلچرل کو مشکوک بنا کر انتہا پسندی کو پھیلانا ہے –
انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے قوم پرست اور روشن خیال چہرے کو مسخ کرنے کے لئے اس طرح کے ہرسازش کو ناکام بنایا جائے گا –