جند ندر اور آخری گولی کے ارمان ۔ ایشرک بلوچ

683

جند ندر اور آخری گولی کے ارمان

تحریر: ایشرک بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

اگر ہم وسائل کے حوالے سے دیکھیں تو دولت سے مالا مال ہے میرا بلوچستان، جغرافیہ کے لحاظ سے دیکھاجائے تو انتہائی اہم خطوط پہ قائم ہے جہاں سے ہند، عرب، مشرق وسطی اور سینٹرل ایشائی ریاستوں کی کڑی آکے ملتی ہے۔ تاریخ کے اوصاف کھول کر دیکھیں تو ہزاروں سال پرانی تہذیب اور ثقافت کی صورت میں مہر گڑھ تک جاپہنچتے ہیں، حسن کی ذوق ہو تو چلتن و بولان کے دامن میں گم ہونے کو جی چاہے۔ یعنی بلوچستان سے قریبی مماثلت رکھنے والا دیار شاید ہی آپکو دنیا میں کہیں اور ملے۔

بالکل اسی طرح بلوچستان کی ماٶں نے ایسے بہادر فرزند جنم دییے ہیں جو اپنی دھرتی ماں کی چاہت اور وطن کے عشق میں صرف فنا نہیں ہوتے بلکہ موت کو شکست دے دیتے ہیں۔ جو اپنے عمل سے خود مورخ بن گئے ہیں، وہ قربانی کے معیار و معنی بدلنے کی نئی رسم ڈال چکے ہیں، جنکی سیرت پر ادب(لٹریچر) نازاں ہے، جنہیں بیان کرنے کیلیے مصنف کو الفاظ تراشنے، شاعر کو احساس خیال کے لیے سحرانوردی کی ضرورت نہیں اور گلوکار کو سرگم کے مزید سات سُر میسر آجاتے ہیں۔

جنکے خیالوں میں گم رہنا جنون بن جائے، جنکے کردار پر وطن رشک کرے، آنے والی نسلوں کیلیے انکے ادا کیے گئے الفاظ سبق اور پیغام(گُڈی کلہو)نبھانا فرض بن جائے۔

اُنہیں ہم اپنے مادری زبان میں “جند ندر” یعنی فدائین کہتے ہیں۔ جند ندر اور ایک عام انسان میں زمین و آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ فکری حوالے سے دیکھاجائے تو ایک عام انسان کا نظریہ اسکی ذات تک محدود ہوتا ہے۔ مگر ایک جند ندر کا پہلا قدم اپنے ذاتی خواہشات اور جذبات کو قربان کرنا ہوتا ہے۔فدائین نہ کسی ذاتی بدلہ، غصہ،تنگدستی، مجبوری، برین واشنگ یا لالچ کے غرض میں خود کوفنا کرنے کے اس مقام پر پہنچتے ہیں اور نہ ہی انہیں 72 حوروں اور جنت کا لالچ ہوتا ہے۔ انہیں ترغیب دیتی ہے اُن ماٶں کی سسکیاں جنکے فرزند تیرہ سالوں سے زندان میں قید ہیں، انہیں اُن بچوں کے آنسو اس جانب راغب کرتے ہیں جو اپنے والد، اپنے پیاروں کی راہ تکتے ایک عمر گزارتے ہیں، اپنے بھائیوں کی ٹارچر سیلوں میں بندش انہیں اکساتا ہے، انسانیت سے بےخبر قابض فوج کے ہاتھوں اپنی بہنوں کی عصمت دری انہیں اس جانب مائل کرتی ہے اور سب سے بڑھ کر غلامی سے آنے والی نسلوں کو نجات انہیں اس راہ کا راہی بنانے میں کلیدی کردار کا حامل ہے۔

انکا نظریہ اپنے قوم، وطن ،آنے والی نسلوں کیلیے قربانی اور مظلوم و محکوم اقوام کو آزادی کے چراغ سے آشنائی پر مشتمل ہوتا ہے۔ وہ بلوچ قوم کے اعلی تعلیم یافتہ باشعور، باکردار اور سیاسی و علمی عبور پر دسترس رکھنے والے فرزند، قربانی کے جذبے سے لیس وطن کے سچے عاشق ہیں۔

فدائین صرف اور صرف نیشنلزم کے نظریے کی بنیاد پر اپنے وطن، قوم اور قومی شناخت کی دفاع میں یہ عظیم فیصلہ لیتے ہیں۔ انکا مقصد جہدِ آزادی کے مشن کو آگے لیجانا اور ساتھ ہی دنیا اور دشمن کو واضح پیغام دینا ہوتا ہے کہ بلوچ قوم بلوچستان کی سرزمین پر کسی بھی قسم کی بیرونی قبضہ گیریت کو قبول نہیں کرتی۔

فدائین اور عام سرمچار میں صرف اتنا فرق ہے کہ گوریلا سرمچار کو یہ معلوم ہوتا ہے کہ کسی نہ کسی ساعت وطن کے دفاع میں اسے انہیں پہاڑوں یا شہر میں دشمن سے لڑتے ہوہے شہید ہونا ہے۔ مگر فدائین کو یہاں تک کہ مخصوص وقت، ہدف اور جگہہ کا بھی معلوم ہوچکا ہوتا ہے کہ انہیں دشمن پر کاری ضرب لگاتے ہوہے ہمیشہ کیلیے تاریخ میں زندہ رہنا ہے۔

وطن سے عشق، عشق کی انتہا اور پھر آخری گولی فلسفہ۔ آخری گولی فلسفہ آج سے آٹھ سال قبل بلوچ تحریک کے محافظ پہاڑی دامن شور پارود میں جنم لیتا ہے جب فکرِ مجید کا ایک درویش شہید امیرالملک دشمن کو شکست سے دوچار کرتے ہوئے ایک نئی تاریخ رقم کرتی ہے۔

آخری گولی فلسفے کی بنیاد کو بیان کرتے ہوئے برزکوہی لکھتے ہے کہ “سات اپریل 2014 کو دشمن سے گھنٹوں لڑنے کے بعد جب اسکی گولیاں ختم ہوجاتی ہیں، تو وہ مسکراتے ہوئے اپنی جیبیں ٹٹولتا ہے اور ایک گولی دائیں جیب سے نکالتا ہے، یہ گولی سالوں سے اسکی جیب میں رکھا ہوتا ہے۔ جب کوئی پوچھتا ہے کہ کس لیئے یہ گولی جیب میں رکھا ہے تو وہ مسکرا کر بولتا میرے لیئے ہے، لیکن کوئی سمجھتا نہیں۔ وہ گولی بندوق کی نلی میں اتار کر، امیر آسمان کی طرف دیکھتا ہے، بندوق کی نل ٹھوڑی کے نیچے مستعد کردیتا ہے، انگلی بندوق کے لبلبہ پر رکھتا ہے، ایک مسکراہٹ، انگلی پر دباؤ، زور دار آواز، گرتی لاش اور ایک فلسفے کا آغاز۔ آخری گولی کا فلسفہ”۔

آخری گولی فلسفی کے تناظر میں جند ندر اور آخری گولی کے درمیان ایک مظبوط رشتہ ہے۔ وہ گولی جو مشن کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے بعد ایک فدائی کے سر کا پیمانہ کرتے ہوئے نکل جاتا ہے اور پھر آخری گولی”گڈیکو سُم” کا اعزاز اپنے نام کرلیتا ہے۔ آخری گولی کا حساب بھی دوسرے گولیوں سے الگ ہوتا ہے۔ فکری حوالے سے دیکھیں تو آخری گولی کو بھی نہ ختم ہونے والی زندگی ملتی ہے۔ وہ بھی خود پر ناز کرتا ہوگا کہ اسے ایک فدائی نے اپنا خاص اثاثہ چنا ہے۔اسے آخری گولی کا اعزاز بخشا ہے۔اسی طرح آخری گولی کے بھی ہزاروں ارمان ہونگے۔
وہ کیا لمحہ ہوگا جب وطن زادے دشمن کو شکست دے کر موت کو بھی شکست دے رہے ہوں۔ الگ سے رکھے گئے آخری دو گولیوں کو نکال کر میگزین میں لوڈ کرنا، اور دشمن کی شکست کا جشن مناتے ہوہے ایک مسکراہٹ کے ساتھ اپنے ہی حلق میں اتارنا۔ نہیں علم کہ یہاں خدا اپنے تخلیق کے کونسے کرشمے دکھا رہا ہوتا ہے۔

مجھے قسم ہے اس ذات کی جس نے مجھے یہ زندگی بخشا ہے، اگر میں انسانی آبادی کا حصہ ہونے کی جگہ گولیوں کے قطار میں ہوتا اور مجھے آخری گولی کا شرف ملتا۔ جنگ کی تیاری کے وقت مجھےباقی گولیوں کے قطار سے نکال اپنے پاکیزہ زبان سے کہتا یہ “میرا گڈیکو سُم” ہے.اف! ارمان، ہزاروں ایسی انسانی زند قربان۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں