روان ہفتے ضلع کیچ کے علاقے ہوشاپ سے پاکستانی فورسز کے ہاتھوں جبری گمشدگی و بعدازاں سی ٹی ڈی کے ذریعے دہشتگردی کے الزام لگا کر منظر عام پہ لائے جانے والی خاتون کی عدم بازیابی کے خلاف آج چوتھے روز بھی سی پیک شاہراہ پر ہوشاپ کے مقام پر دھرنا جاری ہے، جبکہ آج سابق صوبائی وزیر ظہور بلیدئی اور ضلع انتظامیہ کا مشترکہ لواحقین سے مذاکرات ناکام ہوگیا۔
سابق صوبائی وزیر خزانہ ظہور احمد بلیدئی اور ڈپٹی کمشنر کیچ حسین جان بلوچ نے جمعرات کو ہوشاپ جاکر سی پیک شاہراہ پر دھرنا دینے والے مظاہرین سے ملاقات کرکے ان کو دھرنا ختم اور ٹریفک بحال کرنے کے ساتھ یہ یقین دہانی کرائی کہ جمعہ کو نورجان کی رہائی ممکن بنائی جائے گی۔
انہوں نے مظاہرین سے کہا کہ چار دنوں سے اہم 8 شاہراہ پر دھرنے کی وجہ سے مسافروں کو تکلیف کا سامنا ہے، ان کا کہنا تھا کہ سی ٹی ڈی نے نورجان کی گرفتاری ظاہر کرکے انہیں عدالت میں پیش کیا ہے اس لیے اب احتجاج اور دھرنا دینے کا کوئی جواز نہیں ان کی کوشش ہوگی کہ جمعہ تک نورجان بلوچ کو رہا کرائیں تاہم مظاہرین نے اس یقین دہانی پر احتجاج ختم کرنے سے انکار کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ نورجان کو رہا کرکے ان کے حوالے کیا جائے تب دھرنا ختم کیا جائے گا۔ دوسری جانب سندھ کے مرکزی شہر کراچی کے علاقے گلشن مزدور سے پاکستانی فورسز نے بلوچی زبان کی شاعرہ حبیبہ پیر جان کی جبری گمشدگی اور عدم بازیابی کے خلاف تربت مند مین شاہراہ پر مقامی خواتین اور بچوں نے دھرنا دے کر شاہراہ بند کر دی ہے –
کراچی سے جبری گمشدگی کا شکار بلوچ شاعرہ حبیبہ پیر محمد کی کزن سہیلہ قومی نے متنبہ کیا کہ اگر ان کی کزن کو فوری طور پر رہا نہ کیا گیا تو ان کا خاندان اپنے بچوں سمیت غیرمعینہ مدت کیلئے سڑکوں پر بیٹھ کر احتجاج کرے گی۔
انہوں نے کہا کہ حبیبہ اپنے خاندان کی واحد کفیل ہیں، جو کراچی میں اپنے بچوں کو اچھی تعلیم دلانے کیلئے مقیم تھیں۔ ان کی گرفتاری کے بعد ان کے بچے پریشان ہیں۔