بھمبور کے ہونٹوں جیسا کوہلو ۔ محمد خان داؤد

418

بھمبور کے ہونٹوں جیسا کوہلو

تحریر: محمد خان داؤد

دی بلوچستان پوسٹ

کوہلو! محبوب کے گالوں جیسا،کوہلو!ماں کے پرچم جیسا، کوہلو دور رہ جانے والے مسافر جیسا۔ کوہلو!پرئن کی آنکھوں جیسا، کوہلو!چھم چھم کرتی پائل جیسا، کوہلو!بارش جیسا،بارش میں بھیگتے بدن جیسا، کوہلو!میرے وطن جیسا،وطن کے وچن جیسا۔ کوہلو!محبت میں دو دلوں جیسا، کوہلو!بندھن جیسا، کوہلو ماتھے کی مانگ پر سجے سندور جیسا، کوہلو ایسی رنگت جیسا جس رنگ کو دیکھ کر محبت سے محبت ہو جائے! کوہلو!دھرتی کے دل جیسا، کوہلو میری پکار،تیری پکار! کوہلو!پہلی محبت جیسا، کوہلو عشق کی ٹلی جیسا، کوہلو!ساز جیسا آواز جیسا، کوہلو!صوفیوں کے پیروں کے نشاں جیسا، کوہلو محبت، کوہلو!عشق، کوہلو وچن جیسا، کوہلو!تتلی کے پروں جیسا، کوہلو!صوفی کی صداؤں جیسا، کوہلو!دور دور جیسا، کوہلو!قریب قریب جیسا، کوہلو!محبت میں مٹھاس جیسا، کوہلو!بھمبھور پہ ڈوبتے سورج جیسا، کوہلو!مکلی پہ طلوع ہوتے چاند جیسا، کوہلو!دولہا دریا خان جیسا، کوہلو!سرمچاروں کی پکار جیسا، کوہلو!مخروطی انگلیوں جیسا، کوہلو ان ہونٹوں جیسا جو محبت میں پیوست ہو تے ہیں اور جدا ہو تے ہوتے اک اور خدا سے آشنا ہو جا تے ہیں۔ کوہلو!محبت میں بہائے پسینے جیسا، کوہلو!بجتی جھانجھر جیسا، کوہلو!مُساگ جیسا،مساگ میں لال ہو تے ہونٹوں جیسا، کوہلو!گورے پستانوں جیسا،گو رے پستانوں پہ بہتے پسینے جیسا!
کوہلو!ماتھے کی بندھیا،کوھلو عشق کی داستاں،کوھلو!محبت کی سیمفینی!!!
کوھلو!پہلی محبت!
کوھلو!عشق میں مچلتا دل
کوھلو!تو
کوھلو!میں
کوھلو!ڈیرہ بگٹی کا دل
کوھلو!پورا دیس
کوھلو!بلوچستان
کوھلو!عشق کی داستان
کوھلو!عاشقوں کی سرزمیں
کوھلو!بغاوت
کوھلو!للکار
کوھلو!محبت کی سر زمیں!
وہی سرمزیں اس وقت موت اُگل رہی ہے جس سرزمیں پہ دیس کی محبت لکھی گئی تھی جس دیس پر وردی کے بارود داغے تھے،جس دیس کو زنجیروں سے جکڑا گیا تھا،۔جس دیس پہ دھرتی کا نام لینا ایسا ہی تھا جس کے لیے ایاز نے لکھا تھا کہ
”اے دھرتی تنھنجو ناءُ ورتو
جن کاریھر تہ پیر پیو!“
”اے دھرتی جب بھی تیرا نام لیا،تو یوں جانا کالے سانپ پہ پیر دھرا!“
وہ کوہلو!جس پہ دھرتی کے بیٹے کو فراموش کرنے کے لیے سرکار کے کوبرا ہیلی کاپٹر اُڑا کرتے تھے اور اپنی گن شکن بندوقوں سے انساں تو انساں پر پہاڑوں کے بلند و بالا سروں کو گولی سے چھلنی کر دیتے تھے اور ان پہاڑوں پر سے پتھر ڈھلکتے نیچے گرتے تھے اور پہاڑ روتے نظر آتے تھے،وہ کوھلو جوبس دو بار خبروں کی زینت بنا ہے اس وقت کوھلو پر موت کا رقص جا ری ہے پر مین اسٹریم میڈیا میں نہ تو کوھلو کا کوئی زکر ہے اور نہ اس موت کے رقص کا جس میں اب تک کئی دیس کے بچے ہلاک ہو چکے ہیں ایک اس وقت کوھلو اس وقت میڈیاکی زینت بن رہا تھا جب وردی والوں نے ایک لیڈی ڈاکٹر کی عصمت دری کی تھی اور ایک اس وقت جب ایک بوڑھے بلوچ لیڈر کو گن شپ ہیلی کاپٹر سے اُڑا دیا گیا تھا اور اس کے تابوت کو تالا لگا کر ڈیرا بگٹی میں لایا گیا تھا اس سے پہلے کوھلو میں کیا ہو رہا تھا کسی کو کچھ معلوم نہیں اس کے بعد کوھلو میں کیا ہو رہا ہے کوئی کچھ نہیں جانتا اور اب کوھلو میں کیا ہو رہا ہے کسی کو کچھ خبر نہیں کیوں کہ ہم وہی جانتے ہیں جو ہمیں میڈیا دکھاتا ہے اور بتاتا ہے اور اس وقت میڈیا ہمیں کچھ نہیں بتا رہا ہے کوھلو میں کیا ہو رہا ہے؟
اگر کوھلو میں مائیں میتوں کے ساتھ بین کر رہی ہیں اور بوڑھے والدین اپنے کاندھوں پر لاشیں لادیں جا رہے ہیں اور کئی کئی قبریں تیار ہو رہی ہیں پر ہم کچھ نہیں جانتے کیوں کہ ہمیں میڈیا نہیں دکھا رہا کہ بلوچستان کے دور درازضلع ڈیرا بگٹی کی تصیل کوھلو!میں کیا ہو رہا ہے
ملکی میڈیا تو ہمیں وہی بتا رہا ہے کہ فیصل آباد میں عمران خان نے کیا فرمایا،کراچی میں بلاول بھٹو کا استقبال کیسا رہا اور پنجاب کے کسی ضلع میں مریم نواز نے کیا کہا؟باقی ہم کچھ نہیں جانتے
جب ہم میڈیا کے محتاج ہوکر رہ گئے ہیں تو ہم کیسے جان پائیں گے کہ کوھلو!میں کیا کچھ ہو رہا ہے
اس وقت کوھلو!میں ایک آفت آن پڑی ہے اور یہ آفت اس لیے کوھلو میں ہے کہ کوھلو!میں پانی نہیں جو کوھلو کے بچے اور بکریاں پی سکیں جب پانی ہی نہیں تو موت ان کے بہت بہت قریب ہو چکی ہے اور کوھلو کے بچے ایسے ہی مر رہے ہیں جیسے کوھلو کی بکریاں!
اس وقت کوھلو!کے معصوم بچے اور بھیڑ بکریاں برابر ہیں نہ تو بکریوں کی زندگیاں بچائی جا رہی ہیں اور نہ ہی معصوم بچوں کی۔فرق بس اتنا ہے کہ راہ چلتے پہاڑوں کے دامنوں میں چلتے چلتے بکریاں گر کر مر جاتی ہیں ور بلند پہاڑوں کے سائے انہیں دھک دیتے ہیں پر معصوم بچے جب پانی کے نہ ہونے پر مر جاتے ہیں تو مائیں گھروں میں ماتم کرتی رہ جا تی ہیں اور ان کے بڑے بھائی ان معصوم بچوں کو پہاڑوں کی اُوٹ میں دفن کر دیتے ہیں جنہیں پہاڑ بھی اپنا سایہ نہیں دیتے پر جب پہاڑوں کا سایہ ان معصوم چھوٹی قبروں پر آتا ہے تو پہاڑ وں پر بھی لرزہ طاری ہو جاتا ہے
پر وہیں کوھلو!میں سرداروں۔بھوتاروں،جاگیر داروں کے محل نماں گھروں کے آنگن میں چیری،سیب اور انار کے درخت اور سبزہ جوں کا توں ہے وہ ذرہ دیر کے لیے بھی نہیں مرجھائے
محلوں میں موجود پھول نہیں مرجھائے
محلوں میں موجود مور وں کے گیت ختم نہیں ہوئے
محلوں میں موجود قیدی پنچھی نہیں مرے
پر آج بھی مسافر پرندے کوھلو! میں مر رہے ہیں
کوھلو! میں بلوچستان کی بیٹیاں اور بیٹے مر رہے ہیں
کوھلو!میں اجتماعی قبریں تیار ہو رہی ہیں اور اجتماعی جنازے اُٹھ رہے ہیں
مائیں ہیں کہ کوھلو!میں ماتم کر رہی ہیں
پر میڈیا ہے اس پر یہ نشر ہو رہا ہے کہ دانیہ شاہ نے عامر لیاقت کو کیوں چھوڑا؟
کوئی کچھ نہیں جانتا کہ بھمبور کے ہونٹوں جیسا کوھلو!
محبت کی چُمی جیسا کوھلو!
عشق،محبت اور وچن جیسا
وطن میں وچن جیسا کوھلو!ماتمی موسم میں کیوں ہے؟


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں