‏پاکستانی جمہوری نظام اور تعلیمی  محرومیت ۔ سیاف رفیق

377

‏پاکستانی جمہوری نظام اور تعلیمی  محرومیت

تحریر: سیاف رفیق

دی بلوچستان پوسٹ

‏جمہوریت ایک ایسا نظام حکومت ہے جس میں قوانین، پالیسیاں، قیادت، اور کسی ریاست یا دیگر سیاسیات کے بڑے اقدامات کا فیصلہ بلا واسطہ یا بالواسطہ طور پر “عوام” کرتےہیں۔

‏جبکہ ماہرین نے تعلیم کواس طرح بیان کیا ہے کہ تعلیم سیکھنےیا علم ہنر اقتدار اخلاق عقائد عادات اور ذاتی ترقی کے حصول کا عمل ہے۔
‏پاکستان کی  تعلیمی اور جمہوری نظام پر اگر ابتداء سے نظر ثانی کریں تو 1947 سے لیکر  موجودہ  صورتحال تک کچھ اس طرح ہے کہ جمہوری حکومت اور جمہوری نظام کی  صرف دہجیاں اڑائی نہیں گئیں  ہیں بلکہ زوال کی جانب دھکیل دیا گیاہے۔ سب سے  پہلے 1958میں جنرل ایوب خان نے مارشل لاء نافذ کرکے اسکندر مرزا کی حکومت گرا دیا تھا اور  یہ سلسلہ جاری رہا ہے۔جنرل ایوب خان کے  بعد  1969کےمارشل لا کی دوسری لہر جنم لیتا ہے ۔ جنرل یحییٰ خان کی سربراہی میں 1997کی دہائی میں مارشل لاء نافذ ہونے کے ساتھ ساتھ جمہوری سیاست دان زوالفقار علی بھٹو کو سلاخوں میں قیدکرنے کے بعد پھانسی دیکر اسکی  حکومت  گرا دی جاتی اور یوں  جنرل ضیاء الحق کی دور حکومت کا راج اپنے عروج پر آ کر اختتام پذیر ہوتا ہے۔ جبکہ 1999کی دہائی میں جنرل پرویز مشرف آئین شکنی کر کے اسمبلی توڑتا ہے  اور  گدی کا تاج سر لیتا ہے اس طرح پاکستان میں ہمیشہ کی طرح جمہوریت اور جمہوری نظام کی پامالی کا شکار دہائیوں سے  ہوتا آ رہا ہےاور ساتھ میں مارشل لاء کی زد میں تعلیمی نظام  صرف متاثر نہیں بلکہ سنگین انجام سے گزر رہا ہے۔

‏اگرچہ جمہوری اور تعلیمی نظام کو حقیقی معنوں میں  دیکھا جائے
‏تو یہ ایک بنیادی انسانی حق ہے۔ یہ دوسرے انسانی حقوق کو حاصل کرنے کا ایک ذریعہ  ہے اور یہ سماجی اور اقتصادی عناصر کو بااختیار بنانے کا ایک ذریعہ ہے۔ یونیورسل ڈیکلریشن کے ذریعے دنیا کے تمام قومیں رضامند ہو گئے کہ تعلیم ہر ا یک کا بنیادی حق ہے ۔ہر معاشرہ اپنی ذہنی عادات، سماجی اصول، ثقافت اور نظریات ایک نسل سے دوسری نسل تک منتقل کرتا ہے تعلیم اور جمہوری اقدار کے درمیان براہ راست تعلق ہے: جمہوری معاشرے میں تعلیم  کو فروغ دیا جائے گا تو ہر معاشرہ جمہوریت کے شانہ با شانہ رہے گا۔ تعلیمی ترسیل کا یہ عمل جمہوریت میں بہت ضروری ہے کیونکہ موثر جمہوریتیں حکومت کی متحرک اور ابھرتی ہوئی شکلیں ہوتی ہیں جو شہریوں کے لیے آزادانہ سوچ کا مطالبہ کرتی ہیں۔ حکومتوں کو تعلیم کے لیے وسائل کی قدر اور ان وسائل کو تعلیم کیلئیے وقف کرنا چاہیے جس طرح وہ اپنے شہریوں کے دفاع کے لیے کوشش کرتی ہیں۔خواندگی لوگوں کو اخبارات اور کتابوں کے ذریعے باخبر رہنے کے قابل بناتی ہے۔ باخبر شہری نہ کہ صرف اچھے اقتدار میں ہونگے بلکہ اس سے جمہوریت کو بہتر بنائیں گے۔جمہوریتوں میں تعلیمی نظام دیگر سیاسی عقائد یا نظام حکومت کے مطالعہ کو نہیں روکتا بلکہ جمہوریتیں طلباء کو محتاط تحقیق کی بنیاد پر معقول دلائل تیار کرنے کی ترغیب دیتی ہیں۔جس سے طالب علموں کو نہ کہ صرف خیالات تک محدود کرتاہے بلکہ حکمت عملی  سر انجام دینے کی بھی صلاحیت اجا گر کر تاہے۔

‏  جبک دوسری  جانب پاکستان کی اگر ابتدائی اور  موجودہ تعلیمی اور جمہوری نظام کی صورتحال کو  دیکھا جائے کچھ خاص تبدیلیاں عمل میں لائے نہیں گئے۔جبکہ جو بچا کچھا نظام  جوکہ محض  برائے نام  کی ہے۔ جمہوری اور تعلیمی نظام کی  سانسیں ابتداء سے  لیکر آج تک دیکھا جائے تو ابھی بھی دبوجھنے کے ساتھ پسماندگی کی طرف دھکیل دیا جا رہا ہے  اگرچہ دیکھا جائے اس وقت جمہوریت اور تعلیمی نظام دونوں کی مثالیں اس وقت اس مریض کی طرح ہے کسی بھی وقت ڈاکٹر کہے گا” I am sorry”*۔

‏اگر پاکستان کی تعلیمی نظام کو دنیا کی تعلیمی نظام سے موازنہ کریں تو شرحِ خواندگی منفی اثرات مرتب کر چکا ہے جبکہ۔ابتدائی  دور سے لیکر آج تک جتنے حکمران رہے ہیں ان سب نے اپنی سیاست بچانے کی بجائے اگر ٪5 تعلیم  بچا لیتے تو آ ج ملک قوم اور نوجوان نسل کا یہ حال نہیں ہوتا۔ابھی بھی وقت ہے قوم کو  چاہیے اپنی مدد آپ کے تحت اس دلدل سے نکل سکتا ہے  دور حکومتوں کی 75 سالہ کارکردگی  عوام کے سامنے صاف شفاف شیشے کے مانند ہے  اگر قوم اس امید پر ہے کہ کوئی آ ئیگا اور ہمیں نجات دلائے گا  اور اس مگن میں  ٹانگ پہ ٹانگ رکھ کر بیٹھ گیا تو یقین مانے اسی طرح ترقی اور خوشحالی بھی ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر بیٹھ گیا ہےاسی آس پہ بہت سے قومیں زوال پزیر ہوئے ہیں۔ہمیں چاہیے کہ ماضی سے سبق لیں اور مستقبل کی  جمہوری اور تعلیمی نظام کے معیار کو برقرار رکھنے کے لیے پر عزم ہوکر ایک ہی قوم ہونے کا ثبوت دیں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں