ستائیس اپریل کو پاکستان کے صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور سے جبری گمشدگی کے شکار نمل یونیورسٹی اسلام آباد میں انگریزی ادب کے ساتویں سمسٹر کے طالب علم بیبگر امداد بازیاب ہوگئے۔
بیبگر بلوچ کی بازیابی کی تصدیق ساتھی طلباء اور سماجی کارکنان نے کی ہے۔
بیبگر امداد کی جبری گمشدگی کے خلاف بلوچ کونسل اسلام آباد، بی ایس سی لاہور اور اس کے دوست و اہل خانہ تب سے ان کی بازیابی کے لیے سراپا احتجاج ہیں۔
جبری گمشدگی کے وقت بیبگر امداد کی ویڈیو فوٹیج وائرل ہوئی تھی، ویڈیو فوٹیج میں دیکھا جاسکتا ہے کہ جبری گمشدگی کے وقت بیبگر امداد پہ تشدد کرکے انہیں گھسیٹ کر لے جایا جارہا ہے۔
بیبگر امداد کے ساتھی طالب علم کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ اس غیر قانونی عمل کو جواز فراہم کرنے کے لئے مبینہ طور پر کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ (CTD) بیبگر امداد کو کراچی میں پیش آنے والے ایک واقعے سے جوڑنے کی کوشش کر رہا ہے لیکن اس بات کا اب تک نہ کوئی ثبوت سامنے نہیں لایا گیا ہے اور نہ ہی سی ٹی ڈی کی جانب سے کوئی ایف آئی آر یا وارنٹ پیش کی گئی ہے۔ جس کے سبب ہم اس عمل کو گرفتاری نہیں بلکہ جبری گمشدگی قرار دیتے ہیں۔
خیال رہے کہ سی ٹی ڈی پہ بلوچ طالب علم و قوم پرست حلقے اس سے قبل بھی لوگوں کو جبری گمشدگی کا شکار بنانے کے الزام عائد کرتے آرہے ہیں
8 فروری 2022 کو خضدار کے ایک نجی اکیڈمی سے دوران کلاس سینکڑوں طلباء اور اساتذہ کے سامنے جبری گمشدگی کےشکار بننے والے ایم-فل سکالر حفیظ بلوچ کو دو مہینے بعد 30 مارچ کو ضلع نصیر آباد سے منظرعام پہ لایا گیا اور حفیظ بلوچ کے خلاف سی ٹی ڈی کے ایف آئی آر کو طالب علموں نے جھوٹی اور من گھڑت کہا ہے۔
اس کے علاوہ گذشتہ دنوں تربت سے کوئٹہ جاتے ہوئے دوران سفر فورسز نے ایک طالب علم کو پنجگور کے مقام پر بس سے اٹھا کر جبری گمشدگی کا شکار بنایا جس کے بعد ساتھی مسافروں اور علاقہ مکینوں کے آٹھ گھنٹے کے دھرنے کے بعد اس طالب علم کو پہلے پولیس کے حوالے کیا گیا بعدازاں رہا کیا گیا۔