جبری گمشدگیوں کی اذیت نئی نسل کو منتقل ہوچکی ہے – ماما قدیر

808

بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کیخلاف آواز اٹھانے والی تنظیم وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے رہنماء ماما قدیر بلوچ نے عید کے موقع پر اپنے بیٹے شہید جلیل ریکی کے قبر پر حاضری دی۔

اس موقع پر جلیل ریکی کی بہنیں اور اس کی بیٹی وش بخت بھی ماما قدیر بلوچ کے ہمراہ تھیں۔

ماما قدیر کے جوانسال بیٹے کو 13 فروری 2009 کو جبری طور پر لاپتہ کیا گیا جبکہ 24 نومبر 2011 کو جلیل ریکی کی گولیوں سے چھلنی لاش برآمد ہوئی۔ اس وقت ان کے بیٹی کی عمر پانچ سال تھی۔

ماما قدیر بلوچ نے ٹی بی پی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ جب جلیل ریکی کو لاپتہ کیا گیا تو انکی اکلوتی بیٹی وش بخت کی عمر محض ڈھائی سال تھی جبکہ جلیل کے شہادت کے وقت وہ پانچ سال کی ہوگئی تھی اور آج وش بخت اس عمر کو پہنچ چکی ہے کہ وہ جانتی و سمجھتی ہے کہ اس کے والد کو کس نے اور کیوں شہید کیا۔

ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کی اذیت اور اس سے پاکستان کیخلاف پیدا ہونے والی نفرت اب بلوچ قوم کے اگلی نسل کو منتقل ہوچکی ہے۔

جلیل احمد ریکی کے جبری گمشدگی و شہادت کے واقعے و محرکات کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ماما کا کہنا ہے کہ میرا بیٹا ایک سیاسی رہنماء و بلوچ ریپبلکن پارٹی کا مرکزی سیکٹری اطلاعات تھا جنہیں 13 فروری 2009 بروز جمعہ کوئٹہ کے علاقے سریاب روڈ کیچی بیگ میں واقع گھر سے آئی ایس آئی اور ایف سی کے اہلکار اٹھا کر لے گئے اور تین سال تک میرا لخت جگر خفیہ اداروں کی ٹارچر سیلوں میں رہا لیکن اپنے موقف (آزاد بلوچستان) سے کبھی دستبردار نہیں ہوا۔

انہوں نے مزید کہا کہ جب چمالنگ میں پاکستانی فوج کے 40 فوجی بلوچ سرمچاروں کے ہاتھوں مارے گئے تو ردعمل میں خفیہ اداروں نے میرے بیٹے جلیل ریکی کو ایک اور بلوچ جہدکار یونس بلوچ سمیت شہید کرکے ان کی مسخ شدہ لاشیں ایرانی بارڈر کے قریب مند بلو کے پہاڑی علاقے میں پھینک دی کیونکہ پاکستانی فوج بلوچ سرمچاروں کا مقابلہ نہیں کر سکتے تو بدلے میں بلوچ نوجوانوں کو شہید کرکے ان کی لاشوں کو ویرانوں میں پھینکنے کو اپنی کامیابی سمجھتی ہے۔

ماما قدیر نے مزید کہا کہ پاکستانی خفیہ اداروں نے میرے بیٹے کو شہید کرکے ہم سے جسمانی طور پر جدا تو ضرور کردیا لیکن وہ آج بھی بلوچ قوم کے دلوں میں زندہ ہے اور تا قیامت زندہ رہے گا۔