بلوچ پیش مرگہ – انور ساجدی

1688

بلوچ پیش مرگہ 

تحریر: انور ساجدی

دی بلوچستان پوسٹ

میرا خیال ہے کہ موجودہ صورتحال سے نکلنے کیلئے نہ بلوچ کے پاس تیسرا راستہ ہے اور نہ ریاست کے پاس، بلوچ بہت دور چلا گیا ہے سیاست سے ریاست سے حتیٰ کہ اپنے آپ سے، وفاقی دارالحکومت اسلام آباد اور طاقت کے دارالحکومت لاہور میں کوئی یہ مسئلہ سمجھنے کیلئے تیار نہیں بلکہ وقتاً فوقتاً جو غیرہ سنجیدہ اقدامات سامنے آتے ہیں وہ مزاح کا عنصر لئے ہوتے ہیں جیسے کہ سابقہ حکومت نے جلاوطن رہنماؤں سے مذاکرات کیلئے شاہ زین بگٹی کی قیادت میں ایک کمیٹی بنائی تھی یا نواز شریف نے اپنے دور میں اس وقت کے وزیراعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کو مذاکرات کا اختیار دیا تھا وہ اختیار راولپنڈی نے واپس لے لیا تھا اسی طرح نئے وزیراعظم شہباز شریف نے اپنے حالیہ دورہ کوئٹہ کے دوران یہ کہا تھا کہ وہ مقتدرہ حلقوں سے مسنگ پرسنز کے بارے میں بات کریں گے۔

اگرچہ ایک وزیراعظم کے منہ سے یہ بات عجیب لگتی ہے لیکن شکر ہے کہ انہوں نے سچ کہا اور اپنے بھائی یا عمران خان کی طرح جھوٹ نہیں بولا، بڑی لمبی کہانی ہے اس کے بے شمار پہلو افسوسناک، المناک اور تذلیل انسانیت کے زمرے میں آتے ہیں۔ جس کا حاصل یہ ہے کہ ملک پر قابض پنجابی ایلیٹ کوئی تیسرا راستہ نکالنے پر آمادہ نہیں ہے اس کا پختہ یقین ہے کہ وہ طاقت کے استعمال سے بلوچستان کی انسرجنسی پر قابو پا لے گا میں نے کئی مرتبہ ان کی زبانی سنا ہے کہ یہ چند لڑکے کیا کر سکتے ہیں ان کا خاتمہ بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔

لہٰذا یہ معاملہ بہت پیچیدہ بہت گھمبیر بہت حساس اور پرخطر ہے لاہور، راولپنڈی اور اسلام آباد کے مقتدر اکابرین بلوچستان کے زمینی حقائق سے آگاہ نہیں ہیں وہ عوام کے جذبات سے ناواقف ہیں وہ بلوچستان کی جنگ کو فاٹا اور دیگر علاقوں جیسی ایک جنگ سمجھ رہے ہیں اور ان کا خیال ہے کہ وہ اپنے سے کمزور دشمن کو آسانی کے ساتھ شکست دے سکتے ہیں۔

سوچوں میں کیا فرق ہے اس کا اندازہ گودی شاری بلوچ کے واقعہ کے بعد سوشل میڈیا پر مختلف آراء سے لگایا جا سکتا ہے پنجاب سے آنے والی آوازوں میں کہا گیا ہے کہ اس طرح کا خود کش حملہ پاگل پن ہے اور دشمن نے نوجوانوں کو برین واش کر کے پاکستان کو نقصان پہنچانے کیلئے آمادہ کیا ہے یہ آوازیں بہت ہیں لیکن دنیا بھر سے جو بلوچوں نے رد عمل دیا وہ کافی مختلف ہے۔

ان کے نزدیک شاری نے نئی تاریخ رقم کر دی شاری بلوچ تاریخ کی وہ ہیروئن ہے کہ اس کی قربانی ہمیشہ یاد رہے گی شاری کے خود کش حملہ کو مختلف ناموں اور خاتون کو تعریف و توصیف کے عظیم القابات دیئے گئے ہیں کرہ اراض پر جہاں جہاں بلوچ رہتے ہیں لوگوں نے ایک طرف دکھ اور دوسری جانب خوشی کا اظہار کیا ہے راتوں رات ایک بڑا لٹریچر وجود میں آ رہا ہے لوگوں نے شاری کی شان میں ہزاروں اشعار لکھے ہیں۔

خیر یہ بات کرنا تو بے کار ہے کہ بلوچ کلاسیکی ادب میں شاری اور شلی دو اہم کردار ہیں یہ لوگ ایک عام بات نہیں سمجھتے تو انہیں تاریخی یا کلاسک کرداروں کے بارے میں کیا سمجھانا ہے اور نہ ہی انہیں کوئی دلچسپی ہے بلکہ وہ جنگی اور معاشی نکتہ نظر سے بلوچستان کو دیکھ رہے ہیں انہیں صرف اس کے وسائل سے دلچسپی ہے لوگوں سے نہیں یہ وہ کالونیکل اور امپیریل سوچ ہے جو یورپ کے گورے لے کر امریکہ گئے تھے آج وہ عظیم سرزمین اور وسائل ان کے کام آ رہے ہیں لیکن مقامی لوگ ختم ہو گئے ہیں تاابدنیست و نابود ہو گئے ہیں لیکن پاکستانی حکمران یہ بھول گئے ہیں کہ بلوچ کی پوزیشن مختلف ہے وہ صرف پاکستان میں آباد نہیں ہیں بلکہ کئی ممالک میں رہتے ہیں جس میں ایران، افغانستان اور مشرقی وسطیٰ شامل ہے۔

نواب اکبر خان کی شہادت کے بعد جو حالات پیدا ہوئے ہیں وہ دھیرے دھیرے آگے بڑھ رہے ہیں جنرل پرویز مشرف کا خیال تھا کہ ایک بوڑھے بلوچ کو مارنے سے کوئی قیامت نہیں ٹوٹے گی لیکن قیامت ٹوٹ پڑی جو ابھی تک جاری ہے اور نہ جانے اس کا اختتام کیا ہوگا۔
تمام پاکستانی سیاستدان ایک سطحی سوچ رکھتے ہیں اور وہ ہر موقع پر ریاست سے اپنی وفاداری کو ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں یا اس کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے وہ واقعات کی تہہ تک پہنچنے کی کبھی کوشش نہیں کرتے وہ ان اسباب و عوامل کا کھوج لگانے کے ادراک سے عاری ہیں جو خود کش حملہ جیسے المیہ جنم دے رہے ہیں۔

شاری کا واقعہ لیجئے وزیراعظم سے لے کر بلاول بھٹو اور اختر مینگل تک سب نے اس کی مذمت کی لیکن کسی نے یہ نہیں سوچا کہ شاری اور اسکی طرح کے نوجوان اس انتہاء پر کیسے پہنچے۔

ریاست کی یہ پالیسی رہی ہے کہ طاقت کو طاقت کے ذریعے کچل دو ابھی تک یہ پالیسی بوجوہ کامیاب دکھائی نہیں دیتی کیونکہ یہ دنیا کا دستور ہے کہ طاقت کے استعمال سے تشدد بڑھتا ہے اور اس کے مزید استعمال سے مزید تشدد بڑھتا ہے پاکستانی حکمران اس عام بلوچ گڈریئے سے جو میدانوں میں بھوک اور ریاست کی تذلیل سہتے ہیں یا جو پہاڑوں میں غیر انسانی زندگی گزار رہے ہیں ان کے جذبات اور احساسات کو سمجھنے سے عاری ہیں جیسے کہ شاری بلوچ کا جو واقعہ ہوا اسے باقی ملک میں ایک اور زاویہ سے دیکھا جارہا ہے لیکن بلوچستان کے طول و عرض سے اسے دیکھنے کا زاویہ مختلف ہے بہت کم لوگ ہونگے جنہیں شاری کے واقعہ پر افسوس ہوا ہے وہ تو اسے اپنے وطن اور سرزمین کیلئے قربانی کی معراج سمجھتے ہیں اور اس پر نازاں ہیں اس سے قطع نظر کے شاری نے غلط کیا یا صحیح کیا یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ اس طرح کے حالات کیوں پیدا کئے گئے۔

میں ٹویٹر پر آج ہی بلوچ نوجوان خواتین کے فدائی دستے کا ترانہ سن رہا تھا مجھے پہلی مرتبہ پتہ چلا کہ خواتین کی بڑی تعداد نے کرد خواتین کی طرز پر بلوچ پیش مرگہ تشکیل دیا ہے اور غالباً سینکڑوں نوجوان خواتین اپنی جان دینے کیلئے تیار ہیں ان فدائی خواتین کا ترانہ براہوئی زبان میں تھا اور اس میں بلوچ سرزمین کے تعریفی کلمات تھے اور اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ اپنی امل اپنی حانل اور مادر وطن کیلئے اپنی جانوں کا نذرانہ دینے کیلئے تیار ہیں امل اور حانل بلوچی زبان میں محبوبہ کا نام ہے۔

ذراء غور و فکر کی ضرورت ہے اور یہ سوچتے ہوئے غداری کے سرٹیفکیٹ بانٹنے کی فیکٹری کو ذرا سی دیر کیلئے بند کرنے کی ضرورت ہے کہ 16سال کے عرصہ میں کتنے لوگ غائب ہوئے کتنے لوگوں کی لاشیں اور کتنے لوگوں کی مسخ شدہ لاشیں برآمد ہوئیں اور وہ ہزاروں لوگ کہاں گئے جن کے ورثاء رو سکتے ہیں سو نہیں سکتے۔

جبری گمشدگیوں، مسخ شدہ لاشوں اور بے انتہاء تذلیل کے عمل نے نوجوانوں کو مجبور کیا ہے کہ وہ مزید تذلیل سہنے کی بجائے اپنی زندگیاں خود ختم کر دیں۔

جنرل مشرف کے دور میں بلوچستان کے محترم سیاسی رہنماء اختر جان مینگل کو گرفتار کر کے انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش کیا گیا تھا اس پر روزنامہ ڈان نے ایک زبردست اداریہ لکھا تھا جس میں حکام پر تنقید کی گئی تھی کہ انہوں نے بلوچستان کے سابق وزیراعلیٰ اور ایک سیاسی جماعت کے سربراہ کو پنجرے میں ڈال کر عدالت میں پیش کیا ہے جس پر میں نے اپنے کالم میں لکھا تھا کہ اس تضحیک سے کہیں بہتر تھا کہ اختر مینگل پہاڑوں پر چلے جاتے بے شک جنگ نہ لرتے بلوچستان میں لوگوں کی کس طرح تذلیل کی جاتی ہے یہ صرف وہی جانتے ہیں اسی بنیاد پر مولانا ہدایت الرحمان نے گوادر میں ایک زور دار تحریک چلائی تھی چونکہ بندہ اپنا تھا اس لئے روک دیا گیا کہ اس سے آگے نہ بڑھو ورنہ گوادر میں ایک لاکھ کا جلوس کب نکلا ہے۔

ڈاکٹر مالک کو توہین آمیز طریقے سے وزات اعلیٰ سے نکالا گیا اگر وہ جلاوطن رہنماؤں سے مذاکرات کے مسئلہ یا سی پیک پر دستخط سے پہلے مستعفیٰ ہو جاتے تو عزت دسادات رہ جاتی اور آج کے بلوچ نوجوان نہ کہتے کہ بلوچوں کے سامنے دو راستے ہیں ایک وہ جو اختر مینگل اور ڈاکٹر مالک نے اختیار کیا ہے یعنی مفاہمت پرامن جدوجہد اور سیاسی مصلحت دوسرا راستہ گودی شاری نے اختیار کیا ہے جو جذبہ جنون ہلاکت اور قربانی کا ہے۔

معلوم نہیں کہ آئندہ چل کر بلوچ نوجوان کس راستے پر چلیں گے لیکن گماں یہی ہے کہ انہوں نے اس ریاست سے اداروں سے اس کی سیاست سے اور معاملات سے دل اٹھا لیا ہے۔

کراچی یونیورسٹی کے واقعہ کے بعد چین کے ایک سرکاری صحافی نے مشودہ دیا تھا کہ اگر پاکستان چینی باشندوں کو تحفظ میں ناکام ہے تو چینی حکومت خود بی ایل اے کے ٹھکانوں پر بمباری کرے اس سے صورتحال کی سنگینی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے اور سوال یہ ہے کہ جب لوگ خود مرنے کو تیار ہوں تو عام لوگوں کو مارنے سے کوئی فائدہ ہو پاکستان کے سیاسی و غیر سیاسی اکابرین تسلیم کریں کہ اس طرح کے مسائل کو حل کرنے کیلئے ان کے پاس کوئی حکمت کوئی تدبیر اور کوئی پرامن راستہ نہیں ہے اگر وہ طاقت کا زیادہ استعمال کریں گے تو زیادہ خودکش بمبار پیدا ہونگے جب زیادہ خود کش بمبار پیدا ہونگے تو کوئی سی پیک اور کوئی ریکوڈک نہیں چلے گا لہذا حکمرانوں کو یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ ان کی ریاست کا دیرپا فائدہ کس میں ہے مذاکرات کیلئے کوئی تیار نہیں تو کم از کم تجاویز تو طلب کر لیں ہو سکتا ہے کوئی راستہ نکلے۔

پاکستان کے وزیر دفاع اور پنجاب کے نامور سیاستدان خواجہ کا یہ ٹویٹ قابل غور ہے انہوں نے اپنے ٹویٹ میں ایک طرف اربوں روپے کما کر باہر بھاگنے والی فرح گوگی کی تصویر دی ہے اور دوسری طرف کراچی یونیورسٹی میں خود کش دھماکہ کرنے والی شاری بلوچ کی تصویر لگائی ہے۔

جب تک بنیادی تضادات ختم نہیں ہوں گے پاکستان ان دو انتہاؤں میں خدانخواستہ منتشر نہ ہو جائے مندرجہ ذیل ٹویٹ میں ایک خاتون سیاسی و حکومتی سرپرستی میں ارب پتی بن گئی اور ایک تعلیم یافتہ خاتون سیاسی و حکومتی بے حسی کے سبب خود کش دہشت گرد بن گئی۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں