پنجاب سے نفرت کیوں؟
تحریر: ایوب بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
زمبابوے پیپلزز آرمی کے کمانڈر مچینگورا سے ایک انٹرویو میں سوال کیا جاتا ہے آپ لوگ گوروں کو کیوں مارتے ہو؟ تو وہ مختصر جواب دیتے ہوئے کہتا ہے ”ہمارے گولی کا ہدف استحصال ہے“۔
آج کل بلوچوں کو یہی سوال کا سامنا ہے کہ آپ لوگ پنجابیوں سے نفرت کیوں کرتے ہیں۔ تو اس کا آسان جواب یہ ہے کہ بلوچ غلامی اور استحصال سے نفرت کرتے ہیں اور پنجاب نے بلوچوں کو غلام رکھا ہے اور اُن کا استحصال کر رہا ہے ظاہر ہے بلوچ اُن سے نفرت کریں گے۔ صرف پنجابی نہیں بلکہ جو بھی اس قبضے کو برقرار رکھنے میں پنجاب کا ساتھ دے گا تو اُسے بلوچ قوم کی نفرت کا سامنا کرنا ہوگا۔
پنجاب کے چولہے بلوچستان ضلع ڈیرہ بگٹی کے تحصیل سوئی سے نکلنے والی گیس سے جلتے ہیں لیکن سوئی کو بدلے میں پنجاب نے مسخ شدہ لاشیں اور اجتماعی قبریں دی ہیں اور کچھ نہیں۔ اگر میں ڈیرہ بگٹی کو بلوچستان کا پسماندہ ترین ضلع کہوں تو غلط نہیں ہوگا۔
نام نہاد سی پیک کا مرکزی شہر گوادر کا بھی حال بھی بہتر نہیں ہے۔ وہاں پنجابی اور چینی تو بڑے عیش و آرام کی زندگی گزار رہے ہیں لیکن وہاں کے باسیوں کیلئے عیش و آرام تو کجا پینے کا صاف پانی تک میسر نہیں۔ 1986 میں گوادر کے علاقے جیوانی میں پانی کیلئے احتجاج کرنے والے نہتے مظاہرین پر فائرنگ کرکے تین بلوچوں کو شہید کر دیا۔ جن میں گیارہ سالہ بچی یاسمین بھی شامل تھا۔ اس احتجاج میں تین بلوچوں کی جانیں تو گئیں مگر پانی ابھی تک نہیں آیا۔ گوادر کے لوگوں کا ذریعہ معاش ماہی گیری ہے لیکن لوگوں سمندر میں شکار کی اجازت نہیں ہے اس کیلئے بھی اجازت لینا پڑتا ہے وہ بھی ملتا کہاں ہے۔
یہ سب صرف سوئی اور گوادر نشینوں کے ساتھ نہیں ہو رہا بلکہ چاغی کا حال بھی کچھ یوں ہے۔ سیندک اور ریکوڈک سے نکلنے والے سونا اور چاندی سے پنجاب اور چین عیش کر رہے ہیں لیکن وہاں کے لوگوں کو اپنی سرزمین سے دو وقت روٹی بھی میسر نہیں۔ حالیہ دنوں جب وہاں کے باسیوں نے دو وقت کی روٹی کمانے کیلئے سرحد کا رخ کیا تو وہاں پنجابی فوج نے نہتے ڈرائیوروں پر گولیاں برسائیں اور لوگوں کی گاڑیاں ضبط کرکے انہیں صحرا میں مرنے کیلئے چھوڑ دیا گیا تو ان میں سے تین بلوچوں نے پیاس و گرمی کی شدت سے تڑپ تڑپ کر جان دی اور کربلا کی یاد تازہ کردی۔ جب چاغی کے لوگوں نے اس سانحے کے خلاف احتجاج شروع کیا تو فوج نے ان پر فائرنگ کرکے درجنوں بلوچوں کو زخمی کرکے یہ پیغام دیا کہ ”ہم صرف بندوق کی زبان سمجھتے ہیں“۔
یہ بلوچستان کے وہ تین اضلاع ہیں جن سے پنجاب سالانہ اربوں روپے ہڑپ کر کھاتا ہے۔ اسی طرح بلوچستان کے باقی حصے بھی پنجاب کے رحم و کرم پر ہیں۔ خاکی وردی میں ملبوس سپاہیوں سے ہمارا عزت، جان، مال، ساحل اور وسائل کچھ بھی محفوظ نہیں ہیں۔ اجتماعی قبریں، مسخ شدہ لاشیں، جبری گمشدگیاں، عورتوں سے عصمت دریاں، جلتے گھر، ملیامیٹ بستیاں۔۔۔۔ اتنا سب ہونے کے بعد اگر پنجاب نے سوچا ہے بلوچ ان پر پھول برسائیں گے تو یہ ان کی بھول ہے۔
بلوچ اور پنجابی کا رشتہ صرف نفرت کا ہے۔ یہ نفرت ہی ہے کہ بلوچ مرنے اور مارنے پر تُلے ہوئے ہیں۔ رواں برس فروری میں سولہ بلوچ نوجوانوں نے اجتماعی قربانی دے کر پنجاب پر واضح کیا ہم مر سکتے ہیں مگر تمہاری غلامی نہیں کر سکتے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں