کوئٹہ میں قائم وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے بھوک ہڑتالی کیمپ کو آج 4643 دن مکمل ہوگئے، اظہار یکجہتی کرنے والوں میں قلعہ سیف اللہ سے جمعیت علمائے اسلام کے کارکنان ملا ملک عبداللہ، بی این پی عوامی قلات کے صغیر احمد اور بلوچ تنزیل بلوچ شامل تھے-
کیمپ آئے وفد سے گفتگو میں وی بی ایم پی کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ کا کہنا تھا کہ بلوچ قوم اپنی شناخت اور حقوق مانگتے ہیں تو دنیا میں رائج قوانین کے مطابق ہی ان کا حق ہے اگر ہو حق مانگ رہے ہیں تو پھر انہیں شہید اور اغوا کیوں کیا جارہا ہے، انتظامیہ فوج ایف سی، سی ٹی ڈی کے خلاف ایف آئی آر درج کر کے انہیں گرفتار نہیں کرتے ان کو سز نہیں دلاتیں جب ماورائے قانون، آئینی اقدامات پر افسران کو گرفتار کیا جاتا ہے تو ایف سی، سی ٹی ڈی اور خفیہ اداروں کے اہلکار ان پر کوئی کاروائی نہیں کرتے ہیں۔ جب فوج ایف سی خفیہ اداروں کے اہلکار اپنے ہی ملک کے آئین و قانون کو نہ مانتے ہوئے بلوچ فرزندوں کو اغوا کرتے ہوں اور شہد کرتے ہوں تو پھر دنیا کا ہر قانون اپنی دفاع کی اجازت دیتا ہے-
ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ یہاں بلوچوں کے خلاف ایف آئی آر درج ہوتا ہیں ان کے گھروں پر آپریشن ہوتی ہے اور چھاپے مارے جاتے ہیں۔ غیرت مند بلوچوں کی چادر اور چار دیواری کی پامالی کی جاتی ہے ان کو ذرا بھی خیال نہیں ہوتا کہ وہ غلط کررہی ہیں-
ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ وہ پر امن جد وجہد کرنے والوں ہمدردوں کے گھروں پر چھاپہ مارتے ہیں اور ان کو گرفتار کر کے ٹارچر کرتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا یہ کہاں کا انصاف ہے میڈیا کو ریاست اور ان کے اداروں نے خریدا ہوا ہے عالمی میڈیا انسانی حقوق کے ادارے اور اقوام متحدہ سب خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں مقامی انتظامیہ پولیس ریاستی ظلم و جبر کا ساتھ دے رہے ہیں یا خاموش بنے رہے ہیں تو پھر بلوچ فرزند کیا کریں کونسی اپنائیں جب بلوچ قومی جد و جہد آگے بڑھنے لگی اور عالمی اداروں میں پہنچے لگی تو ریاست نے بلوچوں کے جبری اغوا اور ان کے بعد شہید کرکے مسخ شدہ لاشیں پھینکنے کا سلسلہ شروع کیا۔