لکیر کے فقیر
تحریر: نور احمد ساجدی
دی بلوچستان پوسٹ
ہم زندگی میں ہر چیز کو اپنے بنیادی شوق، عارضی خواہشات اور خوشیوں کو پانے کے لئے جدوجہد میں لگے ہوتے ہیں۔ ہماری ایک کمزوری یہ بھی ہے کہ ہم کسی چیز کے بارے میں غور و فکر نہیں کرتے کسی چیز کے بارے میں تحقیق نہیں کرتے ہیں اور ہر چیز کو بغیر غور و فکر اور تحقیق کے تسلیم کرتے ہیں۔ معاشرے میں نظر ثانی کی جائے تو مختلف طبقات اور مختلف مزاج کے لوگ دیکھنے کو ملتے ہیں۔ اور ہر انسان کا سوچ و فکر اور نظریہ الگ ہے ہماری بدبختی یہی ہے کہ ہم کسی کے احساسات اور جذباتوں کو بغیر سوچے سمجھے اُن کے ہاں میں ہاں ملا کے اُسی کے ہر اقدام کو خوش آمد کہتے ہیں اور انہی کے باتوں کو بغیر سوچے سمجھے اُن پے عمل کرکے اسی کے راستے کو اپناتے ہیں۔ ہم یہ نہیں جانتے کے وہ انسان کون ہے اُس کی اصلیت کیا ہے؟ اُس کی سچائی کیا ہے؟ آیا اُس کے فکر اور عمل منسلک ہیں یا نہیں بس بغیر کسی جانے انجانے کے ہم لکیر کے فقیر بن جاتے ہیں۔
ہم یہ نہیں جانتے کے اگلے انسان کا ہمارے ساتھ نظریہ ملتا جلتا ہے بھی یا نہیں بس اس کے چند جذباتی اور جھوٹے باتوں کو سن کے اسے ہم اپنا آقا سمجھ کر اسے اپنا رہنماء مان لیتے ہیں۔ اس طرح ہم ذہنی غلام بنتے جارہے ہیں ہماری سوچ و فکر کو دبوچ لیا جاتا رہا ہے اور انہیں نام نہاد لوگوں کی وجہ سے معاشرے کے نوجوان اپنے قومی ذمہ داریوں کو بھول چُکے ہیں انہیں کیا کرنا ہے کیسے کرنا ہے کب کرنا انہیں ان باتوں کا بلکل بھی علم نہیں بس چند نام نہاد اور خود ساختہ لوگوں کی باتوں کو مان کے لکیر کے فقیر بنے ہوئے ہیں۔ خود ساختہ لوگ جو خود کو رہنماء سمجھ کر انا پرستی اور مفاد پرستی کے شکار بن چکے ہیں وہ اب تک خود کو نہیں پہچان سکے کہ رہنماء ہونا کیا ہے؟ افسوس کی بات یہ نہیں کہ یہ چند خود ساختہ لوگ خود کو رہنماء سمجھتے ہیں بلکہ افسوس کی بات یہ ہے کہ باشعور نوجوان ان نااہل لوگوں کی باتوں کو بغیر سوچے سمجھے مان کر ان پر عمل پیرا ہیں۔
لکیر کے فقیر ہم آج سے نہیں بلکہ کئی عرصے اور صدیوں سے ہوتا ہوا آرہے ہیں۔ کبھی انگریزوں نے استعمال کرکے ورغلایا تو کبھی آپس میں لڑایا۔ کبھی مذہب کے نام پے بانٹ دیا گیا تو کبھی علاقوں اور قبائلوں کے نام پے ہمیں بانٹا گیا کبھی زبان کی بنیاد پے تقسیم کیا گیا اور ہم بٹتے گئے اور لکیر کے فقیر بنتے گئے۔ مختلف ادوار میں ترقی کے نام پے مختلف سامراجی طاقت آتے گئے اور ہمارے لوگوں کو نچاتے رہے۔ جب وہ باشعور نوجوان ان چیزوں کو سمجھتے ہیں اور سوال کرتے ہیں تو اُن پر غداری جیسے سنگین الزام لگائے جاتے ہیں اور مختلف القابات سے نوازے جاتے ہیں اور لاشعور لوگ انہیں صحیح اور سچا ماننے لگتے ہیں کیونکہ نوآبادیاتی میں ہم ذہنی غلام بن چکے ہیں۔
یہاں کی نفسیات ایسی ہے کہ ہم میں سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ہی باقی نہیں رہی۔ اور ہمارا غلام معاشرہ ان ساری چیزوں کو بغیر سوچے سمجھے ماننے کو تیار ہیں کیونکہ وہ ذہنی غلام بن چکے ہیں۔ اس لیئے ایک عظیم دوست کہتا ہے کہ جس نے سوال نہیں کیا وہ زوال ہوا۔ ہر بات اور فیصلے کو بِنا تحقیق کے قبول نہیں کیا جاتا کیونکہ اس طرح کے فیصلے جو بغیر سوچے سمجھے کیے جاتے ہیں تو اس طرح کے فیصلے بعد میں نقصان دہ ہوتے ہیں۔ اور آپ کی قوم کے نوجوانوں کو زوال کی طرف لے جاتے ہیں۔ ہر کسی کے اوپر ایمان لانا بھی بے وقوفی ہے اس لیے کہتے ہیں کہ ہر ہاتھ ملانے والا دوست نہیں ہوتا اور ہر ہمدرد ایماندار نہیں ہوتا۔
ہمیں توقعات نے غلام بنا رکھا ہے ہم ہمشہ اسی امید میں ہیں کہ کوئی ہستی آئے گا اور ہمیں ترقی دے گا کسی کے آس پے بیٹے زندگی نہیں گزرتی اور نہ ہی کوئی آکر ہمارا مقدر بدلے گا ہمیں اپنا مقدر خود بدلنا ہے ہمیں خود کو اور خود کے قوم کو خود ہی سنوارنا ہے ہمیں نظام کو بدلنا ہے اور ہمیں خود ہی ترقی لانی ہے۔ ہمیں نام نہاد لوگوں کی باتوں پے نہیں آنا جو آکر خود کو نام نہاد رہنماء دِکھا کر ہمارا ہاتھ تو تھام لیتے ہیں مگر بیچ رستے میں ہمیں تنہاء چھوڑ کے اور ہمیں اندھیروں کی طرف دھکیل کے خود پیچھے ہٹ جاتے ہیں۔ کسی بھی معاشرے میں اس طرح کے نام نہاد لوگوں نے حکمرانی کی تب جان لیں کہ اُس معاشرے اور سرزمین میں کبھی بھی ترقی نہیں آسکتا۔ وہ قوم کبھی ترقی نہیں کرتی جو نام نہاد اور نااہل لوگوں کو اپنا لیڈر سمجھ کر لکیر کے فقیر بن جاتے ہیں۔ اس طرح کے نام نہاد لوگوں کی وجہ سے آنے والی نسلیں بھی لکیر کے فقیر بنتے رہیں گے اور غلامی کی زندگی بسر کرتے رہیں گے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں