مریم بی بی تم یرو شلم کی گلیوں کی مریم بنو! ۔ محمد خان داؤد

334

مریم بی بی تم یرو شلم کی گلیوں کی مریم بنو!

تحریر: محمد خان داؤد

دی بلوچستان پوسٹ

مسافر بیٹوں، روتی ماؤں، معصوم بچوں کی اُمید کب بر آئے گی؟
ہیرا کیلتوس نے کہا تھا کہ
”ہم کبھی ایک دریا میں دو بار پیر نہیں ڈال سکتے
جب دوسری بار دریا میں پیر ڈالتا ہوں تو نہ میں وہ ہوتا ہوں جو میں پہلی پار تھا اور نہ دریا وہ دریا رہتا ہے جو پہلے ہوتا ہے!“
پر وہ اُمید کے دریا میں کتنی بار پیر ڈال چکے ہیں؟
ایک سال، دو سال، تین، چار، پانچ دس؟
نہیں اتنی بار کے گنتی تمام ہو جائے اتنی بار کے بچے جوان اور جوان بوڑھے ہوگئے اتنی بار کہ مائیں پہلے بیمار پھر قبروں میں پہنچ گئیں اتنی بار کہ جوان بیویوں کے سر سفید بالوں سے ڈھک گئے آنکھوں کی بینائی جا تی رہی آنکھوں کے نیچے درد سے نکلے اشکوں کے نشان رہ گئے اتنی بارکہ آنکھوں کے یچے سیاہ نشان درد کی ماند رہ گئے اتنی بار کہ رستوں کو ان کے اور ان کو رستوں کے نشان یاد رہ گئے، اتنی بار کہ یہ مقولہ بھی اب بے سود معلوم ہوتا ہے کہ
”شالہ کوئی مسافر نہ تھیوے!“
اتنی بار کے کار تول بچھی شاہراؤں پر پیروں کے نشارہ گئے، شاید وہ شاہرائیں بھی نہیں جانتیں کہ ان پیروں کا گزر ان پر کتنی بار ہوا اور وہ پیر بھی نہیں جانتے کہ وہ ان شہراؤ ں پر کتنی بار چلے؟
درد کی کوئی گنتی نہیں!
درد کو کس آلے سے ناپو گے؟
اشکوں کا ذائقہ کون چکھے؟
آہ! انتظار، منتظر دید
دھڑکتا دل کس کھاتے میں؟
ماؤں کا انتظاری کیفیت میں مر جانا کس کھاتے میں؟
راتوں کو ہواؤں سے دروں کے پلڑوں کا ہلتے رہنا کس کھاتے میں؟
انتظار، اُمید، ان جانا خوف اور طویل رتجگے کس کھاتے میں؟
تو درد کو کون ناپے اور کون جانے کہ ان مسافر بیٹوں نے دردیلے سفر میں کتنی بار پیر ڈالے؟ پھر نکالے پھر ڈالے پھر نکالے پر اُمید بر نہیں آئی
اتنی تو دردو ں کی ماری سسئی بھی فیمس نہیں جتنا درد نے سمی کو نام ور کر دیا ہے
پر یہ کیسی نام وری ہے؟
ہو بہ ہو موت جیسی؟
ہو بہ ہو سسئی جیسی؟
وہ دردِ دل سے گزر کر نام ور ہوئی ہے جس نام وری میں سوائے درد، درد، درد اور بس درد کے کچھ نہیں!
ایسا درد جو غالب کے درد کو بھی مات دے غالب نے تو درد کی کیفیت بیان کرتے ہوئے لکھا تھا کہ
”رکھیوں غالب مجھے اس تلخ نوائی میں معاف
آج کچھ درد مرے دل میں سوا ہوتا ہے!“
پر کیا وہ درد بس کبھی کبھی اور کچھ کچھ سوا ہوتا ہے؟
اس درد میں تو مسافر بیٹیاں بات کرتے رو پڑتی ہیں اشک رواں ہو جاتے ہیں سوکھے ہونٹ کانپنے لگتے ہیں ہاتھوں میں لرزش ہونے لگتی ہے اور وہ جو کچھ بیان کرنا چاہتی ہیں ان سے بیان نہیں ہوتا
تو کیا ان کا درد بس کبھی کبھی سوا ہوتا ہے
ان کا درد بارش نہیں
جو کبھی برسے اور تھم جائے
ان کا درد آنسو ہیں
اور ہر وقت دل اور اشکوں کو گیلا گیلا کیے رہتے ہیں
جس سے ا ن کا من اور گال ہمیشہ گیلے رہتے ہیں
ان مسافر بیٹوں نے اُمید کے دریا میں بار بار پیر ڈالے ہیں کہ شاید اُمید بر آئے پر اّمید بر نہیں آتی مشرف،زرداری،پھر نواز،پھر عمران یہ کہاں کہاں نہیں بھٹکیں، عدالتوں کے در کتنی بار کھٹکھٹائے یہ کہنا اور لکھنا ہمارے بس کی بات نہیں پر میں یہاں سا وعدے کی بات یاد دلانا چاہتا ہوں جو واعدہ اسلام آباد کی سرد شہراؤں پر مریم نوان نے ان بیٹیوں سے کیا تھا جو شال کی گلیوں سے چلی تھیں اور کوفہ جیسے اسلام آباد میں خیمہ زن تھیں اور وہ نوحہ گراں تھیں کہ خلق یاراں حیران تھیں
مریم نے ان کے درمیان آکر کہا تھا کہ وہ جب بھی اقتدار میں آئی تو غم شدہ لوگ بازیاب کیے جائیں گے
میں اس مریم سے کہنا چاہتا ہوں
تم راؤنڈ کی گلیوں کی مریم نہ بنو
تم یرو شلم کی گلیوں کی مریم بنو
اور دیکھو اس درد کو جو درد مصلوب یسوع جیسی بیٹیاں محسوس کرتی ہیں
درد جو ناتمام نہیں ہوتا
درد جو شام نہیں ہوتا
درد جس کی کوئی آخیر نہیں
درد جس کی بس سیاہ رات ہے
درد جس کی کوئی صبح نہیں
درد جس کی کوئی سحر نہیں
مریم بی بی تم یرو شلم کی گلیو ں کی مریم بن کر اس درد کو محسوس کرو جس درد میں بس
ایک مسیح تھا
اور ایک مریم
پر مریم بی بی یہاں ہر سمی مریم ہے اور ہر ڈاکٹر دین یسوع ہے
مریم بی بی کیا اب بھی مصلوب ہونے کے دن ہیں؟
اب ان مسافر بیٹیوں کے سفر کو تمام کرو
کیوں کہ ان کے دید کی بھی ایسی حالت ہے کہ
”میں تو چراغِ دمِ صبح وآفتاب سر کوہ ہوں
انا اللہ وانا الیہ راجعون!“
کون جانے کہ کتنی مائیں ”میں تو چراغِ دمِ صبح وہ آفتاب سر کوہ ہوئیں!“
کوئی نہیں جانتا
کاش ایسی منتظر ماؤں کی قبرو ں پر آخری کتبے پر ایسے الفاظ درج کیے جائیں کہ
”یہ منتظر ماں تھی
اب خاک نشین ہوئی!!!!“
اس لیے مریم بی بی آپ لاہور کی گلیوں کی مریم نہ بنیں بس کچھ دنوں کے لیے یرو شلم کی گلیوں کی ماں بن جائیں اور محسوس کریں اس درد کو
جس درد کی دوا کرنے کا آپ نے واعدہ کیا تھا
بی بی مریم!
یو تو یرو شلم کی مریم بنیں
یا تو اپنے گوش سے اس درد کو سنیں
جس درد کو سننے کو پہاڑوں میں بھی سکت نہیں
”وہ نہیں بھولتا جہاں جاؤں
ہائے میں کیا کروں کہاں جاؤں
نہیں اس کا نشاں جہاں جاؤں
میں یہ دل لے کے اب کہاں جاؤں
تھام لے گر نہ مجھ کو تیرا غم
یہ جہاں چھوڑ اس جہاں جاؤں!“


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں