گوادر سالانہ فیسٹیول
اسد بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
گوادر جسے بلوچی زبان میں گوات در یعنی ہوا کا دروازہ کہتے ہیں اس وقت نہ صرف پاکستان میں پاک چائنا اقتصادی راہداری کے سبب بہت اہم ہے بلکہ گوادر اپنی ڈیپ سی کی بناء پر دنیا کے ایک بڑے حصے کے لیے معاشی استحکام و اقتصادی ترقی کے لیے اہمیت کا حامل بھی ہے۔ سیاسی ماہرین کے مطابق جہاں پہ گوادر جیو اسٹریٹجیکل اہمیت کی وجہ سے پوری دنیا کی نگاہوں میں کھٹک رہی ہے وہاں تیسری عالمی جنگ کا ممکنہ مقام یہی خطہ بن سکتا ہے۔
گوات در یعنی گوادر جسے بگاڈ کر گاوادر بھی پکارا جاتا ہے بک فیسٹیول کے نام پر منعقدہ تقریبات کے سبب مکران میں حالیہ کچھ سالوں سے علمی و ادبی مرکز کی حیثیت اختیار کرگئی ہے۔ آر سی ڈی سی گوادر گذشتہ نو سالوں سے فروری کے آخر یا مارچ کے شروعات میں ہر سال تین روزہ میلہ سجاتا ہے جہاں کتابوں کے اسٹال لگتے ہیں، علمی و ادبی اور سیاسی مجالس جمتے ہیں، شعر و ادب پر بات ہوتی ہے نئی کتابوں کی رونمائی کے تقاریب ہوتے ہیں ان تین دنوں میں پورا مکران بلکہ سندھ اور بلوچستان کے دیگر مقامات پر سے لوگ آتے ہیں اور اس کا حصہ بن جاتے ہیں۔
اس سال 24 فروری کو گوادر میں بک فیسٹیول کا آغاز ہوا جو کرونا وائرس کی وجہ سے دو سال تعطل کا شکار رہا تھا۔ دو سالہ وقفہ کی وجہ سے اس سال کا بک فیئر کئی حوالوں سے یادگار ایونٹ تھا، اس میں معروف صحافی جناب وسعت اللہ خان کے علاوہ فاطمہ حسن، ضرار کھوڑو، مبشر زیدی، کراچی سے ضیاء الرحمٰن، عامر رانا اور بلوچستان کے سیاسی معاملات پر نوجوان تجزیہ نگار رفیع اللہ کاکڑ خصوصی طور پر شریک رہے۔ انہوں نے مختلف سیشن کیے، شرکاء کی جانب سے پوچھے گئے سوالات کے مہمانوں نے جواب دیے، ایک سیشن اس سال بھی کتابوں کی تقریب رونمائی کا تھا جس میں معروف صحافی اور انسٹیٹوٹ آف پیس اینڈ ڈویلپمنٹ کے سربراہ عامر رانا کے ناول میرجان کے ساتھ بلوچی زبان کے ممتاز شاعر مبارک قاضی کے دو شعری مجموعے، منیر مومن کا ایک شعری مجموعہ اور بلوچستان سے تعلق رکھنے والے ادیب منیر احمد بادینی کی ناول نگاری پر بلوچی زبان میں لکھا گیا شرف شاد کی کتاب شامل تھیں۔
دوسری طرف بلوچستان اور کراچی سے مختلف پبلشرز کی طرف سے درجن سے زیادہ کتابوں کے اسٹالز لگائے گئے جس میں منتظمین کے مطابق قریباً 15 لاکھ سے زیادہ کی کتابیں فروخت ہوئیں۔
کئی سال پہلے معروف تاریخ دان ڈاکٹر مبارک علی نے کہا تھا کہ پاکستان میں سب سے زیادہ کتابیں بلوچستان میں بکتی ہیں اور اور بلوچستان میں مکران ڈویژن کے نوجوان کتابوں میں سب سے زیادہ دلچسپی لیتے ہیں۔ گوادر فیسٹیول ڈاکٹر مبارک علی کے اس بات کی تصدیق کرتی ہے۔
اب ایسا ہے کہ گوادر صرف اپنے خوش ذائقہ گوادری حلوہ اور محض لذیز مچھلیوں کے لیے مشہور نہیں بلکہ گوادر کا تین روزہ سالانہ بک فیئر بھی پورے پاکستان میں اپنی شہرت بناچکی ہے۔
مکران ڈویژن کے اس خوبصورت ساحلی پٹی کو اگر سی پیک عالمی استعمار کی جنگجاہ میں نہ بدل پایا اور صدیوں سے آباد بلوچ اپنی زمین کے اس حسین ٹکڑے پر آزادی سے رہنے کے مالک بنے رہے تو گوات در یونہی آباد رہے گا۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں