شال کی گلیوں میں ۔ محمد خان داود

280

شال کی گلیوں میں

محمد خان داؤد

دی بلوچستان پوسٹ

اس کے پیروں نے بھی اتنا ہی سفر کیا ہے جتنا سفر لطیف کے پیروں نے کیا تھا
اس کے پیروں میں بھی اتنا ہی درد ہے جتنا درد لطیف کے پیروں میں تھا
دوران سفر اس کی جوتیاں بھی اتنی ہی بھاری ہوگئی ہیں جتنی لطیف کی ہوئی تھیں
پر کیا اسے کوئی تمر دستیاب ہے
جو اس کی دردیلی جوتیاں اُٹھائے
اور اس سے آہ نکل جائے
اور آہ بھری بولی میں پوچھے ”سائیں اتنی بھاری جوتیاں؟“
اور وہ مسکرا کر جواب دے”ان جوتیوں میں سفر کا درد بھی تو ہے“

وہ یسوع جیسا گلزار اپنی قوم کی ماؤں کا درد لیے شال کی گلیوں میں داخل ہوا چاہتا ہے،وہ کون ہوگی جس نے اپنے بالوں سے یسوع کے پیر دھوئے تھے؟وہ مصلوب یسوع،درد سے چور یسوع ان ہی گلیوں سے گزرا ہے جن گلیوں سے کئی صدیاں پہلے یسوع گزرا تھا۔جب بھی مریم اشک بار تھی اب بھی مریم اشک بار ہے!
جب درد یسوع کے تھے اور اشک بار مریم تھی
اور اب کے بار درد مریم کے ہیں اور اشک بار نہیں پر درد سے چور چور یسوع ہے
مریم بھی ایک نہیں
مریم بھی یروشلم کی گلیوں کی نہیں
مریمیں بھی کئی اور وہ بھی بلوچ دھرتی کی!
ان بلوچ مریموں کا درد لیے وہ سفر کر رہا ہے سسئی کا سفر درد کا سفر اکیلا اکیلا سفر جس سفر کو لطیف“انھاگا“سفر کہتے تھے
الفاظ میں کتنا مختصر سا سفر
لو ابھی میں نے لکھا
”تربت ٹو کوئٹہ!“
اس میں تو قلم بھی نہیں تھکا پیر کیا تھکتے دید کیا تھکتی پیروں میں آبلے پا کیا پڑتے پیر زخمی کیا ہو تے درد سے کیا بھرتے،پیر لحو لحو کیا ہو تے
پر جب اسی سفر”تربت سے کوئٹہ!“کو پیر طے کرتے ہیں قدموں سے طے کیا جاتا ہے تو پیر ہی کیا دید بھی تھک جاتی ہے دید ہی کیا روح تھک جاتی ہے اور وہ ان ماؤں کے درد کے واسطے اپنی روح کو تھکا کر شال کی گلیوں میں داخل ہوا چاہتا ہے۔

کیا یہ ضروری ہے جیتے ہوئے کا ہی استقبال کیا جائے؟کبھی ہارے ہوئے کے لیے بھی شہر کی گلیوں تک آنا چاہیے پر وہ تو درد سے مصلوب ہوکر کئی مریموں کا درد لیے شال کی گلیوں میں وارد ہوا چاہتا ہے
یروشلم کی گلیاں نہ صحیح
روتی اکیلی مریم نہ صحیح
شال کی گلیاں تو ہیں
اور وہ مریمیں تو ہیں جو سالوں سے اشک بار ہیں
جو روتی ہیں
بس اک دید کو ترستی ہیں
ہاتھوں میں پرانی مٹتی تصویر لیے چلتی ہیں
لکھے بینر لیے ہاتھوں میں چلتے ہیں جن پر کیا لکھا ہوا ہے؟ وہ نہیں جانتی
وہ جو شہر شہر در بدر ہیں
جن سے بچے چھوٹے
رشتے چھوٹے
شہر چھوٹا
گھر چھوٹا
اور اب تو دید چھوٹ رہی ہے
جو اپنے بچوں کے دوستوں سے گلے مل کر بہت رو تی ہیں اور جب کوئی پوچھتا ہے اماں کیوں رو رہی ہو؟
تو جواب ملتا ہے ان کو گلے لگا کر ہنس نہیں سکتی اسے گلے لگا کر رو تو سکتی ہوں۔
ان سب ماؤں کا درد لیے زخمی پیروں،میلے بالوں اور اداس دید لیے وہ شال کی گلیوں میں داخل ہوا چاہتا ہے،بے بس مریم جیسی ماؤں کو چاہیے کہ وہ شال کے داخلی دروازے پر اس کا استقبال کریں،اس کے گال چومیں،ہاتھ چومیں،اور اپنی میلے دوپٹوں کو پرچم بنا کر اس کے ساتھ شال کی گلیوں میں داخل ہوں،
وہ جس کے پیر زخمی ہیں،وہ جس کے پیروں نے ہی نہیں پر دید نے بھی سفر کیا،وہ جو جس کے جسم نے نہیں پر روح نے بھی سفر کیا،وہ جو بہت سے چیزیں پیچھے چھوڑ کر بس اس بات کو لیے آگے بڑھا کہ
”مائیں بہت اکیلی ہیں!“
وہ جو اکیلا بہت سی ماؤں کے لیے مسافر بنا
وہ جس کے پیروں نے ساتھ سو سے بھی زائد سفر طے کیا!
وہ جو زخمی پیر لیے شال گی گلیوں میں وارد ہوا چاہتا ہے
مسافر مائیں آؤ،اداس بہنیں آؤ،معصوم بیٹیاں آؤ اور اپنے بھائی کے دردیلا دل،اداس دید اور بے چین روح دیکھو
وہ جو یسوع جیسا ہے
وہ جو ہجوم میں اکیلا عیسیٰ ہے
وہ جو بہت سے اندھوں میں بس ایک دید والا ہے
وہ جوہجوم میں اکیلا مسافر ہے
وہ جو پہاڑوں کے دامنوں سے اترا اور اب شال کی گلیوں میں داخل ہوا چاہتا ہے
وہ جو خود روتا ہے،رُلاتا ہے اور اشک بار رہتا ہے
آؤ اور آکہ اس کی دل جوئی کرو اور اس یسوع کو یہ بتاؤ کہ اس کا یہ سفر رائیگاں نہیں
اس کے پیروں کے زخم رائیگاں نہیں
وہ تو بہت پیچھے پتھروں پہ نقش پا چھوڑ آیا ہے
اب شال کی گلیوں میں لحو لحو لحو پیروں سے داخل ہوا چاہتا ہے
حالاں کہ اس کے پیر ایسے ہیں کہ وہ دل پر نقش ہو جائیں
آنکھوں پر اثر نقش ہو جائیں
پر کون ہے جو ان دردیلے پیروں کو ہاتھوں میں لے لے
میں یہ نہیں کہتاکہ آگے بڑھو اور یسوع کی ماند
اس کے پیر آنسوؤں سے دھوؤ
اور بالوں سے سکھاؤ!
پر یہ تو کر سکتی ہو کہ جب وہ اداس دید لیے شال کی گلیوں میں داخل ہو تو اپنے گم شدہ لوگوں کی تصاویر لیے اس کا استقبال کرو اور شال کی گلیوں میں یسوع جیسے گلزار دوست کے ساتھ داخل ہو جاؤ اس بات کے ساتھ کہ
”ہم بے وطن،دربدر،خاک بہ سر
قافلہ شال میں
بجتے کسی نوحے کی طرح
ماتم کرتی ماں کی طرح
ہم بے وطن،در بدر،خاک بہ سر“


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں