ٹرمپ انتظامیہ افغانستان میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کے رویے کی وجہ سے اسے دی جانے والی 25 کروڑ 50 لاکھ ڈالر کی امداد روکنے پر غور کر رہی ہے۔
امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز کی رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا کہ ٹرمپ انتظامیہ کو لگتا ہے کہ مبینہ طور پر گرفتار، حقانی نیٹ ورک کے ایک عسکریت پسند تک رسائی کے امریکی مطالبے پر مسلسل انکار سے پاکستان کے امریکا کی جانب رویے کا عکس نظر آتا ہے۔
اخبار میں کہا گیا ہے کہ اکتوبر میں پاکستانی فورسز کی جانب سےامریکی کینیڈین اہلخانہ کی بازیابی کے لیے کیے گئے آپریشن کے دوران مبینہ طور پر حقانی نیٹ ورک سے تعلق رکھنے والے ایک عسکریت پسند کو گرفتار کیا گیا تھا۔
خیال رہے کہ رواں برس اکتوبر میں پاکستانی فورسز نے کینیڈین شہری جوشوا بوئل اور ان کی امریکی اہلیہ کیٹلان کولمین کو ان کے 3 بچوں سمیت بازیاب کرایا تھا۔
امریکی اخبار نے دعویٰ کیا کہ امریکی حکام کو اس بات کا علم ہے کہ پاکستان نے اس آپریشن کے دوران حقانی نیٹ ورک سے تعلق رکھنے والے ایک شخص کو مبینہ طور پر گرفتار کیا تھا اور اس کی گرفتاری کو پاکستانی حکام نے خفیہ رکھا تھا۔
کسی نامعلوم امریکی اہلکار کا حوالہ دیتے ہوئے امریکی اخبار کی رپورٹ میں کہا گیا کہ مبینہ طور پر گرفتار عسکریت پسند سے ان کی قید میں موجود مزید امریکیوں کا سراغ لگانے میں معلومات حاصل کی جاسکتی ہیں۔
اقتدار میں آنے کے بعد کئی مرتبہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کے کردار پر سوال اٹھا چکے ہیں اور پاکستان میں دہشت گردوں کی مبینہ محفوظ پناہ گاہوں کا الزام بھی عائد کر چکے ہیں تاہم پاکستان کی جانب سے ہمیشہ دوٹوک الفاظ میں ان الزامات کی تردید کی گئی ہے۔
حال ہی میں امریکی نائب صدر مائیک پینس کی جانب سے بیان سامنے آیا تھا جس میں کہا کیا گیا تھا
کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اسلام آباد کو ’نوٹس‘ پر رکھ لیا ہے۔
امریکی اخبار کی رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ پاکستان اور امریکا کے درمیان حقانی نیٹ ورک کے کارندے کی حوالگی سے متعلق دونوں ممالک کے درمیان پیدا ہونے والا تناؤ ڈونلڈ ٹرمپ کو اپنے خدشات پر عمل کرنے پر مجبور کر دے گا۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ پینٹا گون کی جانب سے پاکستان کی حمایت کی وجہ سے اسلام آباد پر پابندیاں عائد کیا جانا ممکن ہوتا نظر نہیں آتا تاہم ٹرمپ کے نیشنل سیکیورٹی کونسل کے اراکین میں پاکستان کے لیے مثبت سوچ نظر نہیں آرہی۔