بلوچستان میں خودکشی کا بڑھتا رجحان ۔ اسلم آزاد

850

بلوچستان میں خودکشی کا بڑھتا رجحان

تحریر: اسلم آزاد

دی بلوچستان پوسٹ

خودکشی کا لفظی مطلب اپنے آپکو جسمانی طور پر ختم کرنا ہے، اس میں سوچنے اور سمجھنے کی بات یہ  ہے کہ وہ کونسے حالات اور واقعات ہوتے ہیں کہ فرد اپنی زندگی سے زیادہ موت کو ترجیح دیتا ہے۔

خودکشی بنیادی طور پر ایک نفیساتی کیفیت ڈپریشن کی وجہ سے ہوتا ہے۔ ڈپریشن ایک زہنی دباُو کی کیفیت ہے جس میں فرد اپنے وجود کو  بے کار اور زیاں سمجھتا ہے، خودکشی سے پہلے فرد کے دماغ میں مختلف اقسام کے غیر حقیقی دلیل ہوتے ہیں۔ مثال کے طور، میں فضول ہوں، میں بے کار ہوں، میرا اس دنیا میں ہونے کا کوئی جواز نہیں ہے۔

ڈپریشن کے کچھ علامات
1۔ نا اُمیدی۔
2۔ سستی۔
4۔  احساس کمتری۔
5۔ بے بَسی کا احساس۔
6۔ تھکن محسوس کرنا۔
7۔  تنہائی کا شکار ہونا۔
8۔نیند بہت کم یا زیادہ ہونا۔
9۔ کسی کام میں دل نہیں لگنا۔
10۔ خود کُشی کا خیال یا کرنا۔

خودکُشی کے حوالے سے دنیا کے مختلف مکاتب فکر کے لوگوں نے مختلف سیاسی، سماجی، معاشی، طبی اور عمرانی نقطہ نظر  پیش کیے ہیں۔ اب ہم ان نظریات(Holistic Approach ) پر تفصیلی گفتگو کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو فرد کی خودکشی کا سبب بنتے ہیں۔

نفسیاتی نقطہ نظر
ماہر نفسیات سگمنڈ فراڈ Sigmund Freud کا کہنا ہے کہ انسانی شخصیت دو نفسیاتی قوتوں Id and Superego کا تخلیق کردہ ہے جسے عام زبان میں داخلی و خارجی قوت کہتے ہیں. داخلی قوت سے مراد اندرونی، نفسیاتی جذبات، خواہشات اور خیالات جبکہ خارجی قوت سے مراد بیرونی، مذہبی، اخلاقی، سیاسی حالات ہیں۔ سگمنڈ فراڈ کے مطابق ہر انسان ان دونوں قوتوں کے ساتھ ایک مسلسل نفسیاتی جنگ میں ہوتا ہے۔

یہ دونوں قوتوں میں سے کون، کب اور کس وقت ایک دوسرے پر غالب ہوتا ہے اور عملی  زندگی میں انسان کیسے کامیابی سے روزہ مرہ کے حالات کا سامنا کرتا ہے اور  نفسیاتی حوالہ سے کیسے شکست خوردہ  ہوتا ہے زرا غور سے توجہ فرمائیں.

سگمنڈ فراڈ کے مطابق اگر ایک انسان نفسیاتی Egoistically حوالے سے پختہ و بالغ ہے تو وہ خارجی حالات اور اپنے اندرونی  خواہشات کو  آسانی سے سمجھ سکتا اور انکو حل کرسکتا ہے۔ مطلب مضبوط فرد Ego کی مدد سے اپنے جبلت اور اخلاقیات Superego and ID میں توازن برقرار رکھ سکتا ہے۔ Egoحقیقت کو مدنظر رکھ کر درمیانہ فیصلہ کرتا ہے، جس میں فرد کا انفرادی خواہشات اور اخلاقیات دونوں متوازن ہوتے ہیں۔
‏(Balance personality)

فرد کا اگر Ego (نفسیاتی حوالہ) سےکمزور ہے. تو وہ اپنے بیرونی ضروریات اور اندرونی خواہشات کو اچھی طرح سمجھ نہیں سکتا ہے، دونوں قوتوں میں توازن برقرار Balance نہیں رکھ سکتا ہے۔ مطلب کمزور شخصیت کا  اڈ اور سپر ایگو کے تضادات کی وجہ سے فرد  نفسیاتی دباؤ میں آجاتا ہے جسکی وجہ سے وہ نفسیاتی بیماری ڈپریشن کا مریض ہوتا ہے بالاخر وہ خود کشی کرتا ہے۔

سماجی نقطہ نظر
ایماِئل دُورکائیم Emile Durkhaim ایک مشہور اور معروف ماہر عمرانیات تھا۔ دورکائیم کا بنیادی تعلیم اور رہاش فرانس میں تھا۔ دوُر کائیم نے کارل مارکس اور میکِس ویبر کے ساتھ بھی مل کر کام کیا تھا۔ دُورکائیم نے اپنے خودکُشی کے نظریہ میں دَعوئ کیا ہے کہ  خودکشی کو سماجی نقطہ نظر Sociological  سے دیکھنے اور سمجھنے کی ضرور ت ہے، کیونکہ خودکشی نہ صرف نفسیاتی بیماری ڈپریشن Psychological اور طبیعات Biological وجہ سے ہوسکتا ہے بلکہ خودکشی کے بہت سارے بیرونی سماجی  اسباب ہوتے ہیں جو فرد کو اس حد تک مجبور کرتے ہیں کے وہ اپنی زندگی کو ختم کرلے۔

ایمائل دُورکائیم نے خودکشی کے تین بنیادی اقسام بتائے ہیں۔

ا. Egoistic Suicide ۔ یہ خودکشی کا وہ سبب ہے جس میں فرد کا اپنے ماحول کے ساتھ بہت کم سماجی  رابطےSocial integration ہوتا ہے۔

سماجی رابطے کی کمی کی وجہ سے شخص اکیلا پنisolated اور اداسی محسوس کرتا ہے۔ جسکی وجہ سے وہ اپنے وجود کو بے معنی اور بے مقصد سمجھتا ہے۔ ایسی اداسی کے عالم میں وہ ذہنی کشمکش سے دوچار ہوتا ہے۔ وہ نفسیاتی دباؤ کی وجہ سے  تنگ آخرکر اپنے آپ کو ختم کرتا ہے۔ دوسری بات انفرادیت پسند انسان کو اپنے آپ کو سماج کے ساتھ ناطے جوڑنے کا کوئی مضبوط وجہ نہیں ہوتا ہے۔

اا. Altruistic Suicide ۔ یہ خودکشی کی وہ قسم ہے جس میں فرد کا اپنے ماحول کے ساتھ بہت زیادہ سماجی  رابطے social integration  ہوتے ہیں۔ بہت زیادہ سماجی رشتہ کی وجہ سے فرد اپنی انفرادی ساخت یا شخصیت کھو دیتا ہے۔ بلاآخر وہ اپنی انفرادی وجود کو ثابت کرنے کے لیے مجبوراً اپنے آپ کو اجتماعی فائدہ collective cause کے لیے قربان کرتا ہے۔

ااا. Anomie Sucide .  یہ خودکشی کی وہ وجہ ہے، جس میں ماحول یا معاشرے کے سیاسی، سماجی، اور اخلاقی نہ برابر حالات اور ماحول کی وجہ معاشرے کے لوگوں کا زندگی کا گزر ناممکن ہوگا۔ جسکی وجہ سے فرد بیرونی حالات سے تنگ آکر اپنے آپکو جسمانی طور پر ختم کردیتا ہیں۔

معاشی نقطہ نظر
ماہر معیشت کارل مارکس  Karl Marx کے مطابق سرمایہ دارانہ سماج Capitalist Society میں 98% عوام کا سارا دولت %2 امیر لوگوں کے پاس ہوتا ہے جبکہ دوسری طرف   مزدور اور مظلوم عوام کو دو وقت کی روٹی نصیب نہیں ہے۔

مارکس کے مطابق سماج میں دولت کے غیرمنصفانہ تقسیم  کے وجہ معاشی تنگ دستی پیدا ہوتاہے، یہی معاشی نابرابری کی وجہ سے مزدوروں اور کسان طبقات میں احساس محرومی اور مایوسی پیدا ہوتا ہے جن کو خود کشی کرنے پر مجبور کرتا ہے۔

اسکے علاوہ سرمایہ دارانہ معاشرہ جنسی، نسلی اور طبقاتی نابرابری ہوتا ہے جو معاشرہ کے نچلے طبقے marginalized کے لوگوں میں ایک نفسیاتی دباؤ پیدا کرتا ہے، یہ سیاسی، نسلی، مذہبی اور سماجی امتیازات مایوسی ناامیدی میں بدل جاتے ہیں بالاخر  انسان زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔

‏”class conflict and unequal distribution of wealth”

پوسٹ کولونیل نقطہ نظر

پوسٹ کولونیل مفکر اور ماہر نفسیات (سیکاٹسرٹ) فرائنز فینین Fanaz Fanon کا کہنا ہے خودکشی صرف اور صرف ایک نفسیاتی معاملہ نہیں ہے، نہ کہ فردے واحد اپنی خودکشی کی ذمہ دار ہے۔

فینین کا نظریہ ہے کہ خودکشی کو سامراجی نقطہ نظر  سے Colonial Perspective  سمجھنے کی ضرورت ہے، کیونکہ خودکشی کے ذمہ دار فرد سے ذیادہ وہ سیاسی، سماجی، معاشی، حالات Holistic Approach ہوتے ہیں جو فرد کے نفیساتی کفیت پر دباو ڈالتا ہے۔

فرائنز فینین کا مزید کہنا ہے کہ ایک نوآبادکاری ماحول Colonised Territory میں فرد اپنی خودکشی کا زمہ دار خود نہیں ہوتا ہے کیونکہ غلامانہ سماج میں فرد کو اپنی زندگی گزارنے کا حقFreedom of choice نہیں ہوتا۔بلکہ اسکے زندگی اور موت کا فیصلہ اسُکا آقا colonizer کرتا ہے۔ نوآبادیاتی نظام میں زندگی اور موت ایک جیسے ہوتے ہیں۔
‏”Colonization is Dehumanization”

قبضہ گیر نظام میں غیر اخلاقی رویہ Demoralization کی وجہ سے فرد اپنا وجودی اور اخلاقی اہمیت کو کھو دیتا ہے۔قبضہ گیر نظام میں اس طرح کے اخلاقی بحران کی بنیادی ذمہ دار  سامراجی نظام ہوتا ہے، جس میں ایک سوچا سمجھا منصوبہ بندی کے تحت فرد کا اخلاقی معیار ختم کیا ہوا ہے جس کے بعد فرد مزید زندہ رہنے کا خواہش نہیں کرتا ہے۔

غلامانہ سماج میں فرد کے خودکشی کا فیصلہ فرد کا اپنی مرضی اور منشاء سے نہیں ہوتا بلکہ نوآبادکار کی طرف سے ایک مسلط شدہ فیصلہ ہے جس میں فرد بے بس اور بے حس ہے، فرد کو مجبوراً خودکشی کرنا پڑتا ہے۔

موت اپنی، نہ عمل اپنا، نہ جینا اپنا
کھو گیا شورش گیتی میں قرینہ اپنا
(فیض احمد فیض)

سامراجی نظام میں سامراج  periphery میں پورا پورا سرگرم عمل نہیں ہوتا ہے نہ کہ سامراج کو  قبضہ گیر علاقہ میں کوئی ترقی اور خوشحالی لانے میں دلچسپی ہوتا ہے. لیکن ریاست اپنی قبضہ گیر نظام State Domination کو برقرار رکھنے کے لیےمظلوم اور معصوم  عوام پر سخت سے سخت ظلم ڈھائے گا تاکہ مقامی لوگوں کے دل و دماغ میں سامراج کا خوف و ہراس طاری ہو اور مقامی لوگ ریاست کے خلاف بغاوت نہ کریں اور مقامی لوگوں کا انقلابی شعور و زہنی صلاحیتیں دب جایئں۔

چونکہ مزاحمت کرنا Resistance ایک فطری عمل ہے، اگر لوگ ریاست کی ڈر و خوف سے اسکے خلاف بغاوت نہیں کرسکتے تو یقیناً انکی زہنی انرجی رویس ہوگا اور وہ انرجی انکے  زات اور وجود کو منفی کرتا ہے،  یہ منفی کرنے کا عمل انکی زات کو بے معنی اور دماغی قوت مدافعت (Disturb Ego Functionality) کو متاثر کرتا ہے اور بالآخر  مقامی لوگ احساس محرومی، ناامیدی اور نفیساتی بحران سے تنگ آکر خودکشی کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔

اس کے علاوہ سامراجی نظام میں نوآبادکار کو نوآبادیاتی لوگوں کی بالکل ضرورت نہیں ہوتی ہے۔ کیونکہ سامراج کا بنیادی مقصد اس علاقے کے ساحل وسائل کا لوٹ مار ہےExploitation  نہ کہ مقامی آبادی کا تہذیب یافتہ بنانا (Civilizing Mission) ہے ۔ اسلئے سامراج مقامی لوگوں کو ختم کرنے کے لیے مخلتف نسل کش پالیسیاں Genocide Policy تخلیق کرتا ہے۔ تاکہ مقامی آبادی زیادہ سے زیادہ ختم کیا جاسکے اور سامراجی ریاست کو اپنی استحصالی مشینری کو  تقویت دینے میں مزید آسانی ہوسکے۔ یاد رہے سامراجی نظام میں خودکشی ان نسل کش پالیسیوں Systematic Genocide کا ایک تسلسل ہے۔

بلوچستان؛ خاص طور پر بلوچ حلقوں میں آج کل جو خودکشی کا ایک لہر پھیل رہا ہے۔ یہ ریاست کی اُن جبری اور استحصالی پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔ جس نے مقامی لوگوں کی زندگی کو حرام کیا ہوا ہے۔

ریاستی کولونیل پالیسی کی وجہ سے بلوچ سماج سیاسی، سماجی، معاشی اور اخلاقی طور پر غیرمستحکم اور غیر فعال ہوچکا ہے۔ ان سماجی  بے ضابطگیوں نے مقامی لوگوں کو اس حد تک مجبور کیا ہے کہ وہ اپنی زندگی سے زیادہ موت کو ترجیح دے رہے ہیں۔

اردو کا ایک مشہور اور معروف محاورہ ہے۔ “ریاست ماں جیسی ہوتی  ہے”۔ بے شک ریاست ماں جیسی ہوتی ہے ان لوگوں کے لیے  جن کا ایک آذاد اور خودمختار ریاست ہے۔ لیکن یہاں سوچنے اور سمجھنے کا نقطہ یہ ہے کہ ایک غلام قوم کا کوئی سیاسی ڈھانچے نہیں ہوتا ہے کہ غلام قوم کی مستقبل، خوشحالی اور ترقی کے لیے پالیسی سازی کرے۔ بلکہ طاقتور سامراج غلام قوم کے عظیم اور غیور لوگوں کو کیڑے مکوڑےWretched کی زندگی بسر کرنے پر مجبور کردیتا ہے۔

قبضہ گیر سماج میں فرد کا خودکشی کا بنیادی وجہ ثقافتی عدم استحکام Anthropological Disorder ہوتا ہے جو کہ پورے سماج پر بے حسی، احساس محرومی، لا معنویت کی کیفیت طاری کرتا ہے، اس نا امیدی اور نفیساتی بحران کا بنیادی ذمہ دار سامراجی ریاست ہوتا ہے۔ جو مقامی لوگوںIndigenous people کے لیے ایسی غیر انسانیInhuman پالیسیوں کی تخلیق کرتا ہے کہ مقامی آبادی کو خودکشی کرنے کے علاوہ اور کیا چارہ نہیں ہوتا۔

غلامانہ سماج میں نفسیاتی اور اخلاقی بحران اس قدر زیادہ ہوتے ہیں کہ مقامی لوگ ایک ہی دن سو دفعہ مرتے و زندہ ہوتے۔

تجھے کیا بتاوں کے کیا ہے شب غم بری  بلا ہے۔
مجھے کیا برا تھا مرنا اگر ایک بار ہوتا
(مرزا غالب)

حل
اس حوالے سے فرائنز فینین کہتا ہے مظلوم پر نفسیاتی دباؤ آنا اور خود کو ختم کرنے کے بجائے  بہتر یہ ہے کہ مظلوم اپنی خودکشی کرنے کے سوچ اور جذبے کو ایک نظریاتی سمت دے اس کو سامراجی نظام کو ختم کرنے کے لیے استعمال کرے جس نے مظلوم کا جینے کا حق اُن سے چھین لیا ہے۔

فرائنز فینین مزید کہتا ہے مظلوم لوگ اکھٹا ہوکر اپنی مایوسی اور احساس کمتری  (Inferiority complex)  کو ایک عملی اور شعوری سانچے Sublimation میں تبدیل کریں، مطلب تمام مظلوم اور محروم لوگ متحد ہوکر ایک انقلابی یا نظریاتی تنظیم بنائیں اور اس تنظیم کے ذریعے  اپنی قومی آزادی کے لئے جدوجہد  کریں.

فینین کے مطابق تشدد Violence  کی خوبصورتی یہ ہے کہ اس سے پورے انقلابی عمل میں غلام کے سارے نفسیاتی مسائل Suicide ختم ہونگے اور وہ دوبارہ ازسرے نو ایک نیا اور آذاد انسان پیدا ہوگا اور  اپنے وجود کو خود تخلیق کرتا ہے جس میں غلام اپنی غلامی کی زندگی کو مسترد اور آذاد زندگی کا انتخاب کریگا. یہ آزاد انسان کا فتح ہے. بصورت دیگر مظلوم کو غلامی کی سزا بھگتنا پڑتا رہتا ہے۔

نظام بدلنے تک یہ ظلم بھی سہنا پڑتا ہے۔
مظلوم  کے بچے کو  مظلوم ہونا  پڑتا ہے۔

خودکشی انسان کا تقدیر کا فیصلہ نہیں ہے، بلکہ یہ سامراجی ریاست کا ایک سوچا سمجھا منصوبہ ہے، نوآبادکار نوآبادیاتی سماج کو اس قدر تنگ کرتا ہے کہ لاعلم مظلوم اپنے موت کے سوا اور کچھ سوچ بھی نہیں سکتے ہیں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں