تاریخ بلوچستان میں بلوچ خواتین کا کردار
تحریر: جی آر مری بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
آج کل زیادہ تر لوگوں کا خیال ہے کہ بلوچ خواتین سیاست، تعلیم اور دیگر میدانوں میں مردوں کی نسبت اتنی سرگرم نہیں ہیں لیکن یہ تصور بالکل حقیقت کے برعکس ہے اگر اس بات کا بغور جائزہ لیا جائے تو ہمارے سامنے کُچھ ایسے کردار گزری ہیں جو مثالی ہیں اگر ہم بلوچ قوم کی تاریخ کو اُٹھا کر دیکھیں تو ہمیں کئی ایسے بلوچ بہادُر بیٹیوں کا نام ملے گا جو اپنی بہادُری اور ہمت سے مردوں کے شانہ بشانہ کھڑے رہے اور بلوچ تاریخ میں امر رہے۔
بلوچستان کی تاریخ میں بلوچ خواتین کا بھی اُتنا ہی کِردار رہا ہے جتنا بلوچ مردوں کا رہا ہے۔ مگر افسوس کہ ہم آج تک بلوچستان اور بلوچ قوم کی ایک طویل تاریخ سے نابلد ہیں نہ ہمیں اپنے تاریخ کے بارے میں اور نہ ہی ہمیں اپنے تاریخی رہنماؤں کے بارے میں بتایا جاتا ہے اور اس سے بڑی کمزوری یہ ہے کہ ہم خود بھی اپنے تاریخ کو جاننے کی کوشش نہیں کرتے آج تک زیادہ تر لوگ یہی سمجھتے ہیں کہ بلوچ خواتین کا تاریخ میں کوئی کردار رہا ہی نہیں تو اُن کے سامنے کُچھ تاریخی بہادُر بلوچ خواتین کا ذکر کرتا چلوں تا کہ بلوچ قوم کے نوجوان اپنے تاریخی کردار پر حامل خواتین کے بارے میں جان سکیں جنہوں نے ہمیشہ مردوں کے شانہ بہ شانہ جدوجہد کرکے اپنے نام بلوچ قوم کے تاریخ میں رقم کی اور آنے والے نسلوں کے لئے سبق آموز بن گئے۔
1: بی بی بانڑی رند بلوچ
یہ 1555 کی بات ہے جب ہمایوں نے شیرشاہ سوری کے خلاف بلوچ قوم سے مدد مانگی اور پہلی بار بلوچ قوم نے اتفاق کرکے تقریباً ایک لاکھ تیس ہزار (130000) کا لشکر دہلی کو فتح کرنے کے لئے روانہ کی، یہ ایک بڑی جنگ مانی اور جانی جاتی ہے دورانِ جنگ بلوچ قوم کے کئی جوان شہید ہوتے ہیں اور باقی جنگ سے منہ موڑ کر پیچھے ہٹ جاتے ہیں مگر آگے چل کر دیکھتے ہیں کہ بی بی بانڑی ہمارےساتھ موجود نہیں ہیں تب اُنہیں یہ معلوم ہوتا ہےکہ بی بی بانڑی رند بلوچ تقریباً دو سو(200) سپاہیوں کے ہمراہ شیر شاہ سوری کے لشکر کے ساتھ نبرد آزما ہیں تو شاعر اِس طرح لکھتے ہیں کہ شیرشاہ سوری جنرل بی بی بانڑی سے کہتا ہے کہ “آپ عورت ہیں آپ پیچھے ہٹیں ہم آپ سے جنگ نہیں لڑیں گے” تب بی بی بانڑی اُنہیں بلوچی میں یہ جواب دے کر کہتی ہے
اگاں من جَنینے آں تئی جن ءِ ھِزم آں
جن ھما اَنت کے میتگاں نند اَنت
پن ءُ مُزواک ءُ ماپراں رند اَنت
گوں وتی مرداں دز گلائیش اَنت
یہ ایک ایسا جواب تھا کہ اس جواب کو سُننے کے بعد بلوچ لشکر کے جو سپاہی پیچھے ہٹ گئے تھے اُنہیں پھر سے حوصلہ مِلا پھر سے وہ جنگ لڑنے کے لئے آمادہ ہوکر شامل ہوئے اور دہلی کی جنگ کا کمان بی بی بانڑی رند بلوچ نے سنبھال کر دہلی کو فتح کرلیا۔ اس واقع سے یہ پتہ چلتا ہے کہ بلوچ خواتین نہ صرف مردوں کے شانہ بشانہ کھڑے رہے بلکہ اول دستے کا کردار ادا کیا۔
2: دودا کی ماں (دودا ءِ مات)
دودا ءِ مات سے مُراد دودا کی ماں کا ذکر کیا جا رہا ہے۔ ہم بالاچ بیرگیر اور سمّی کے بارے میں ضرور جانتے ہونگے۔ جب سردار بلیدی اور سمّی کے درمیان معاملات خراب ہوئے، تو سمّی کس طرح دودا کے ہاں پناہ لینے آتی ہے۔ تو دودا حسبِ بلوچی روایت انہیں اپنے ہاں پناہ دیتی ہے۔ لیکن اس دوران دودا نے شادی کی تھی اور وہ اپنی بیوی کے ساتھ وقت گزار رہا تھا۔ دوران پناہ بلیدیوں کا لشکر سمّی کے بھیڑ بکریوں کو لے جانے لگتا ہے تب دودا کی ماں آکر بلوچی میں یہ شعر کہتی ہے
آ مرد کہ میاراں جَلّ اَنت
نیمروچاں نہ وپس اَنت کُلاں
بعد میں یہ شعر انتہائی مشہور ہوا اور بلوچ قوم میں ایک ( بتل) بن گیا ۔ اس کا تشریح کچھ اسطرح ہے کہ اگر آپ کسی کو پناہ دیتے ہیں تب آپ کو ہر وقت اور حالت میں اُس پناہ گزیں (باھوٹ) کی مال و جان کی حفاظت کرنا فرض بن جاتا ہے۔ اس لئے دودا کے ماں کے کہے گئے ان اشعار کی آج تک بلوچ قوم میں قدر کی جاتی ہے۔ اور جب بھی بلوچ خواتین کا ذکر ہوتا ہے وہاں دودا کی ماں کا ذکر ضرور ہوتی ہے۔
گِراناز
گِراناز میر باران کلمتی کی بیٹی تھی گراناز نے للّہ کی بہادری اور دلیری کو دیکھ کر اس کے ساتھ شادی کی، ایک دفعہ جام اور مگسیوں نے میر باران پر حملہ کرنے کی منصوبہ بندی کی، اچانک میر باران کو کسی نے جام اور مگسیوں کے حملے کی منصوبہ بندی کا خبر دے دیا تو میر باران نے خبر سنتے ہی اپنے لشکر اور داماد میر للّہ کو اپنے ساتھ لیکر جنگ کیلئے پیش قدمی کی، میر باران کے گاؤں سے طویل فاصلے پر دونوں لشکروں کا آمنا سامنا ہوا، اس جنگ میں جام اور مگسیوں کی لشکر تعداد میں بہت زیادہ تھی، جنگ سات دن تک جاری رہا۔ اس طویل جنگ میں میر باران کلمتی اور ان کا بیٹا سمیت بہت سے لوگ مارے گئے۔ میر لّلّہ نے آخری دم تک جنگ کی اور میدانِ جنگ میں شدید زخمی ہوا۔ اس خونریز جنگ کے بعد میر للّہ کے نوکر نے انہیں گُھوڑے پر بِٹھا کر رُخ گاؤں کی طرف کرکے نکال دیا تو گُھوڑا میر باران کلمتی کے گاؤں پُہنچا، میر للہ بہت زخمی حالت میں تھے لیکن لوگوں نے گِراناز کو طعنہ دینا شروع کیا کہ آپ کا شوہر میدانِ جنگ سے بھاگ گیا ہے تو یہ بات گِراناز کو ناگوار گُزری تو وہ فوراً میر للّہ کو کہتی ہے کہ مجھے اپنے والد اور بھائی کی کھونے کی اتنا دُکھ نہیں کہ جتنا آپ کی بزدلی اور پیچھے ہٹنے کا دُکھ ہے۔
گراناز نے لوگوں کے من گھڑت باتوں پر یقین کرکے اپنی شوہر سے کہا کہ آج کے بعد تم میرے لئے بیٹے اور بھائی کی مانند ہو، میں تیرے لئے ماں اور بہن کی طرح ہوں، آخر گِراناز بلوچی میں ایک شعر کہتی ہے کہ
او للُّو تئی ھمراهاں من ءَ گْوشتگ
کہ للُّو چہ جنگ ءِ پادرو ءَ جستگ.
5: ماھناز بلوچ
بلوچ قوم کی تاریخ میں ماھناز بھی ایک نامی گِرامی خاتون رہ چُکی ہے۔ اگر ہم آج کے فیمینسٹ لوگوں کو دیکھیں تو وہ کہتے ہیں کہ اگر آپ کا شوہر آپ پر کوئی ظلم کرے یا آپ کے ساتھ کوئی اور مسئلہ ہو تو آپ اُس کے خلاف آواز اُٹھائیں۔ شہداد اور ماہناز کی کہانی بھی کُچھ اسی طرح ہے۔ شہداد کی پہلی بیوی شاری نے ماہناز پر جھوٹا الزام عائد کیا کہ ماہناز کا عمر کے ساتھ ناجائز تعلقات ہیں۔ اس بے بنیاد اور جھوٹے الزامات کی وجہ سے شہداد ماہناز کو چھوڑ کر گھر سے نکال دیتا ہے۔ تو ماہناز دوسری عورتوں کی طرح کسی کونے میں بیٹھ کر روئی نہیں بلکہ بدلہ لینے کی ٹھان لی اور عمر کے ساتھ منگنی کرلی۔ اِس طرح شہداد ماہناز کے پیچھے پاگل ہوگیا اور اُس کے پیار میں کئی اشعار لکھے۔ اس واقع سے یہ واضح ہوتا ہے کہ بلوچ خواتین ہمیشہ اپنے حقوق کے لئے آواز اُٹھاتی رہی ہیں۔
ان کے علاوہ بلوچ قوم کی تاریخ میں کُچھ جنگجو خواتینوں کا بھی ذکر ہے۔
1: گُل بی بی
1916 کے دورانیے میں جب پہلی جنگِ عظیم ہوئی تو اُس وقت بلوچ قوم نے انگریزوں کے خلاف جنگ لڑا۔ اس جنگ میں رحمت زئی یا پھر جیئند خان ان سب نے انگریزوں کے خلاف جنگ لڑی۔ مگر انگریزوں نے جنگ کو روکنے کے لئے جنرل ڈائیر ( General Dyer) کو لایا یہ ایک ایسا ظالم اور قاتل انسان تھا جو بھی اس کے سامنے آتا یہ اُسے مار دیتا اس لئے انڈیا میں اس کے اوپر ایک کتاب لکھا گیا اس کو ( The Butcher Of Amritsar) بھی کہتے ہیں۔ کیونکہ اس ظالم نے Amritsar میں 379 لوگوں کو موت کے گھاٹ اُتار دیا تھا۔ اس ظالم کے ساتھ بلوچوں کی ایک بڑی جنگ ہوئی اور اس جنگ کی سربراہی گُل بی بی بلوچ کررہی تھی۔ جنرل ڈائیر ( General Dyer) اپنی کتاب ( The Raiders Of The Sarhad) میں لکھتے ہیں کہ گُل بی بی اپنے لشکر کے ساتھ میدان جنگ تو ہار گئی مگر جنرل ڈائیر اُن کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ گُل بی بی جیسے بہادُر خاتون میں نے آج تک نہیں دیکھا جو میرے جیسے خطرناک جنرل کا سامنا کرتیں۔ اس کے علاوہ گُل بی بی کے بارے میں ڈاکٹر شاہ محمد مری نے بھی آرٹیکل لکھ لیا جس میں اُنہوں نے گُل بی بی کے جدوجہد اور بہادُری کے بارے میں پورے تفصیل کے ساتھ لکھا ہے۔
2: بی بی گنجی بو
پناہ ہمیشہ مردوں نے دی ہے مگر یہاں ایک ایسے بلوچ خاتون کا ذکر ہے جس نے پناہ دی ہے۔ یہ 1898 کی بات ہے جب 6 جنوری 1898ء میں میر محراب خان نے کیچ کے قلعے پر حملہ کیا اور اُسے قبضہ کرلیا، 9 جنوری 1898 ء کو گِیشگور کے قریب کیپٹن برن پر میر رُستم خان اور میر بلوچ خان نوشیروانی نے ایک ہی وقت حملہ کیا تو کیپٹن برن وہاں سے بھاگ کر اورماڑہ چلا گیا اور وہاں سے کیپٹن برن برطانیہ کو ایک ٹیلی گرام بیجھتے ہیں کہ ہم پر حملہ ہوا ہے، انہوں نے ہمارے 15 ہزار روپے 30 بندوقیں لوٹ کر لے گئے اور مجھے ایسا لگتا ہے کہ ہمارے تمام سپاہیوں کو بھی مار ڈالا اور لیفٹینٹ ٹرنر بھی مارا گیا ہے مگر ایسا نہیں ہوتا یہ جو چند لوگ بچ جاتے ہیں یہ ( چم بروئیں قلات ) جہاں سردار یار محمد بلوچ تھے برطانیہ کے دس لوگ حملے میں بچ کر وہاں سردار یار محمد کے ہاں پناہ لینے جاتے ہیں مگر وہ جب وہاں جاتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ سردار وہاں نہیں ہے مگر سردار کی بیوی بی بی گنجی بو وہاں موجود ہے اور وہ انہیں پناہ دیتی ہے جنہوں نے اُن پر حملہ کیا گیا تھا کُچھ دیر بعد وہ لوگ وہیں آجاتے ہیں اور بی بی گنجی بو سے کہتے ہیں کہ دشمن کے ان دس لوگوں کو ہمارے حوالے کر دو یہ ہمارے دشمن ہیں مگر بی بی گنجی بو اُنہیں منع کرکے کہہ دیتی ہے کہ میں ایک بلوچ ہوں اور بلوچ روایات کے مطابق میں ان پناہ گزینوں کو آپ کے حوالے نہیں کر سکتی کیونکہ یہ میرے پناہ (باھوٹ) میں ہیں۔ یہاں بی بی گنجی بو نے بہادُری کا مظاہرہ کیا اور اسی کے بعد 5 اگست 1898ء کو وائسرے گورنر جنرل آف انڈیا نے ایک appreciation لیٹر بی بی گنجی بو کے نام بیجھا اور اُس کے لئے تحفے بھی بھیج دیئے کہ اُس نے ہمارے لوگوں کو بچایا۔
3: خاتوں بی بی
خاتوں بی بی جو میر داد شاہ بلوچ کی بہن تھی۔ میر داد شاہ بلوچ جنہوں نے سیستان بلوچستان میں 1950ء میں ایران کے خلاف جنگ لڑی اور یہ ایک طویل جنگ تھی آخر 1957ء میں میر داد شاہ کو دھوکے کے ذریعے مار دیا گیا اس جنگ میں اُس کی بہن آخری سانس تک اپنے بھائی کے شانہ بہ شانہ جنگ لڑتی رہی اور میر داد شاہ کے نام سے ایک فلم بھی بنایا گیا ہے جس میں ان کے اور اُن کی بہن خاتوں بی بی کی بہادُری اور جدوجہد کو دِکھایا گیا ہے۔
4: مریم شاھو اور زرک شاھو
یہ دونوں بہادُر لڑکیاں شاھو بلوچ کی بیٹیاں تھیں۔ ان کا قصہ کُچھ اس طرح ہے کہ تُرک کے لشکر شاھو سے ٹیکس لینے آئے مگر شاھو نے تُرک لشکر کو ٹیکس دینے سے انکار کیا اور علاقے کے باقی لوگوں نے بھی شاھو کی مدد نہیں کی اور اُنکا ساتھ دینے سے انکار کیا تو شاھو نے ان سے کہا کہ میرا کوئی بیٹا نہیں اس لئے آپ لوگ میرا ساتھ نہیں دے رہے ہو تو کوئی بات نہیں میری بیٹیاں تو ہیں۔ شاھو اپنے دونوں بیٹیوں اور ایک رشتے دار جو کُچھ تاریخ دانوں کے مطابق اُن کے بڑی بیٹی کی شوہر ساتھ تھی جنکو کو ساتھ لے کر پہاڑ کی کسی گھاٹی میں گھات لگا کر وہ ترک لشکر کے ساتھ جنگ لڑتے ہیں اور اس جنگ میں وہ سب مارے جاتے ہیں مگر آخری سانس تک شاھو کی دونوں بیٹیاں اپنے ابا کے شانہ بہ شانہ بندوق اُٹھا کر جنگ لڑتی رہتے ہیں۔ اس کہانی کے بارے میں بھی 2018 میں ایک بلوچی فلم ( جگین) کے نام سے بنائی گئی ہے جس میں اُن کی بہادُری اور دشمن کے خلاف جدوجہد دِکھایا گیا ہے۔
اس کے علاوہ اور بھی کئی ایسے نام ہیں جن کا مجھے ڈیٹا نہ مِل سکا مگر کُچھ خواتین کا نام تو مِلے ہیں البتہ اُنکا ڈیٹا نہیں مِل سکا جن میں 1 (کمبر ءِ مات) قمبر کی ماں سلطان خاتون، (میر نتها ءِ لوگ بانک)، میر نتھا کی بیوی بانک سیمُک جس کا کہانی گِراناز کی کہانی سے مِلتا جُلتا ہے مگر مجھے انکا ڈیٹا نہیں مِل سکا اور چاگُلی بھی شامل ہیں جن کا ڈیٹا نہیں مِل سکا۔ ان تمام کا ڈیٹا مُختلف کتابوں میں ہے جنکو فقیر شاد کی بلوچی کتاب (میراث)، ڈاکٹر جلال بلوچ کی کتاب(عورت اور سماج) اور پناہ بلوچ کی کتاب جنکا نام شاید عورت اور اُنکا کِردار وغیرہ ہے۔
ان تمام بلوچ خواتین کی جدوجہد سے یہ واضح ہوتا ہے کہ بلوچ خواتین ہر دور میں بلوچ مردوں کے برابر اور شانہ بہ شانہ جدوجہد کرتی رہی ہیں اور نہ ہی وہ کمتر تھیں اور نہ ہی اب کمتر ہیں۔ اپنے تاریخ کے بارے جانیں اور اپنے تاریخی رہنماؤں کے بارے مطالعہ کریں تاکہ آپ اپنی تاریخ، شناخت اور وجود کو جان سکیں اور ہمیشہ کے لئے اپنی شناخت کو برقرار رکھنے کیلئے بلوچ خواتیں کو اپنے ساتھ جدوجہد میں برابر سمجھیں اور انہیں موقع دیں تاکہ وہ ماضی کے بلوچ عورتوں کی طرح آج بھی مردوں کے ساتھ سیاست اور دیگر محاز پر اپنا کردار ادا کرسکیں۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں