راشد حسین کے اغواء کے چشم دید گواہ کو بھی عرب امارات سے اغواء کیا گیا۔ لواحقین

546

متحدہ عرب امارات سے خفیہ ایجنسیوں کے ہاتھوں اغواء ہونے والا حفیظ زہری کی لواحقین وی بی ایم پی کے رہنما ماما قدیر بلوچ اور سمی دین کے ہمراہ کراچی پریس کلب میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ ہم آپ کے سامنے اس سے پہلے بھی کئی بار آچکے ہیں اور اپنے پیاروں سے متعلق پریس کانفرنس اور احتجاج کے ذریعے اپنے خدشات کا اظہار کرچکے ہیں لیکن بجائے ہماری آواز سننے اور انصاف فراہم کرنے کے ناانصافیوں کا لامتنائی سلسلہ جاری ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس پریس کانفرنس کے توسط سے ہم آگاہ کرنا چاہتے ہیں کہ گذشتہ رات متحدہ عرب امارات کے شہر انٹرنیشنل سٹی سے امارات کے خفیہ اداروں کے اہلکاروں نے عبدالحفیظ زہری کو جبری طور پر لاپتہ کیا گیا جس کے حوالے سے تاحال ہمیں کسی قسم کی معلومات نہیں مل سکی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ بلوچستان کے ضلع خضدار سے تعلق رکھنے والے عبدالحفیظ زہری گذشتہ کئی سالوں سے متحدہ عرب امارات میں اپنا کاروبار چلاکر گزر بسر کررہا ہے۔ بلوچستان میں حالات کی خرابی کے باعث اس نے متحدہ عرب امارات منتقل ہونے کا فیصلہ کیا لیکن وہاں بھی ہمارے پیاروں کی زندگیاں محفوظ نہیں ہے جو باعث تشوش ہے۔

گذشتہ رات تین گھنٹے سے زائد پارکنگ میں انتظار کرنے والے اہلکار عبدالحفیظ کو دو بجے کے قریب گرفتار کرکے اپنے ہمراہ لے گئے جس کے بعد اس کے حوالے سے ہمیں کسی قسم کی معلومات نہیں مل سکی ہے۔

انہوں نے کہا کہ انسانی حقوق کے کارکن راشد حسین بلوچ تین سال قبل 26 دسمبر 2018 کو متحدہ عرب امارات سے جبری طور پر لاپتہ کیا گیا جس کی چشم دید گواہ عبدالحفیظ زہری تھے جبکہ بعدازاں وہاں کے خفیہ اداروں اور فورسز اہلکاروں نے حفیظ زہری کے گھر پر چھاپہ مارا تاکہ راشد حسین کا پاسپورٹ حاصل کیا جاسکے لیکن انہیں کچھ نہیں ہاتھ لگا جبکہ اسی وقت عبدالحفیظ زہری کو بھی جبری طور پر لاپتہ کرنے کی دھمکی دی گئی۔

راشد حسین بلوچ کو چھ مہینے تک لاپتہ رکھنے کے بعد غیر قانونی طور پر پاکستان کے حوالے کیا گیا جہاں وہ تاحال لاپتہ ہیں۔ اس حوالے سے آپ کے علم میں ہوگا کہ ہم مسلسل احتجاج کرتے رہے ہیں کہ راشد حسین کو منظر عام پر لاکر قانونی حقوق دیئے جائے لیکن اب عبدالحفیظ کی جبری گمشدگی ہمارے خدشات میں مزید اضافے کا باعث بن رہی ہے۔

یہاں اس بات کا ذکر کرنا ہم ضروری سمجھتے ہیں کہ عبدالحفیظ زہری کے گھر کے افراد کو جبری گمشدگیوں اور ٹارگٹ کلنگ جیسے واقعات کا سامنا کرنا پڑا تھا جس کے باعث عبدالحفیظ زہری متحدہ عرب امارات منتقل ہوئے۔ عبدالحفیظ زہری کے بھائی کمسن مجید زہری کو جبری طور پر لاپتہ کیا جن کی تشدد زدہ لاش 24 اکتوبر 2010 کو ملی جبکہ عبدالحفیظ کے والد حاجی رمضان زہری جو ایک کاروباری شخصیت کے طور پر جانے جاتے تھے، کو 2 فروری 2012 کو بھرے بازار میں مسلح افراد نے فائرنگ کرکے قتل کردیا۔

ان حالات سے مذکورہ خاندان کے افراد پہلے بلوچستان میں آئی ڈی پیز کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوئے جبکہ بعدازاں وہ متحدہ عرب امارات منتقل ہوئے۔ عبدالحفیظ زہری اپنے بچوں کا واحد سہارا ہے جو اپنی بساط کے مطابق کاروبار کرکے اپنا گزر بسر کررہا تھا۔

آپ کے توسط سے ہم اپنی آواز متحدہ عرب امارات کے حکام تک پہنچانا چاہتے ہیں کہ وہ مہذب ملک کے طور پر انسانی حقوق کا لحاظ کرتے ہوئے حفیظ زہری کو فوری پر منظر عام پر لائے اگر ان پر کسی قسم کا الزام ہے تو وہاں کی عدالتوں میں پیش کیا جائے جبکہ محتدہ عرب امارات راشد حسین کے جبری گمشدگی اور پاکستان حوالگی کے حوالے سے بھی عالمی اداروں اور لواحقین کو جواب دے۔

انہوں نے کہا کہ راشد حسین کی طرح عبدالحفیظ کے زندگی سے متعلق ہمیں خدشات لاحق ہیں، انسانی حقوق کی تنظیمیں اور سیاسی جماعتوں سے گزارش کرتے ہیں کہ اس حوالے سے اپنا کردار ادا کریں اور ہمارے پیاروں کی بحفاظت بازیابی کیلئے آواز اٹھائیں۔