سی ٹی ڈی نے ضلع کیچ میں گرفتار ہونے والوں کی شناخت ظاہر کردی۔ سی ٹی ڈی پولیس کے مطابق گرفتار ہونے والوں میں نبیل ہاشم، عبدالطیف، نواز علی اور فراز شامل ہیں۔
سی ٹی ڈی نے دعویٰ کیا ہے مذکورہ افراد سانحہ ہوشاپ سمیت فورسز پر حملے اور دیگر نوعیت کے واقعات میں ملوث پائے گئے ہیں۔
سی ٹی ڈی کے مطابق مذکورہ افراد کا تعلق بلوچ آزادی پسند مسلح بلوچستان لبریشن فرنٹ سے ہیں۔ تاہم بی ایل ایف کا موقف اس حوالے تاحال سامنے نہیں آیا ہے۔
سی ٹی ڈی نے دعویٰ کیا ہے کہ یہ چاروں ہوشاب کے رہائشی ہیں۔ ان کے قبضے سے دستی بم اور اسلحہ بھی برآمد ہوا ہے۔
انہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ مذکورہ افراد نے تفتیش کے دوران انکشاف کیا ہے کہ انہوں نے دستی بم مستقبل میں کارروائی کے لیے چھپایا تھا جو اس وقت پھٹ گیا جب بچے وہاں کھیل رہے تھے۔
سی ٹی ڈی کے مطابق انہوں نے علاقے میں دیگر کارروائیوں کا بھی اعتراف کیا ہے جن میں حامد جنرل سٹور پر فائرنگ، ہوشاب میں ایک ڈمپر پر دستی بم کا حملہ، ہوشاب میں ایف سی پر دستی بم سے حملہ، حکیم درزی کی دکان پر فائرنگ، سی پیک کے لیے مراد ہوٹل میں کھڑی ایکسویٹر کو جلانا شامل ہیں۔
ریڈیو زرمبش نے علاقائی ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ کہ جن واقعات میں ان نوجوانوں پر جعلی مقدمات قائم کیے گئے ہیں وہ واردات ذاتی دشمنی کی بنیاد پر پاکستانی فوج کی حمایت یافتہ ڈیتھ اسکواڈ ’لاٹو گروپ‘ نے انجام دیے تھے۔
ریڈیو زرمبش کے مطابق یہ گروپ حامد جنرل اسٹور پر فائرنگ،ڈمپر پر دستی بم حملہ،حکیم درزی کی دکان پر فائرنگ میں ملوث ہیں ۔یہ واقعات اس گروپ نے اپنی ذاتی دشمنی میں انجام دیے تھے جس کے بارے میں علاقہ مکین بخوبی جانتے ہیں۔
ان کے حوالے سے سی ٹی ڈی کا کہنا ہے کہ انہوں نے مزید انکشاف کیا کہ بی ایل ایف کے کمانڈر زمان رستم نے انہیں مقامی ہیڈ ماسٹر احمد علی، ڈاکٹر فضل اور دیگر کے قتل سمیت دہشت گردی کی مزید کارروائیوں کا ٹاسک دیا تھا لیکن انہیں مزید کارروائیاں کرنے سے پہلے ہی گرفتار کر لیا گیا ہے۔
سی ٹی ڈی کا مزید کہنا ہے کہ ایک ملزم نے ضابطہ فوجداری کی دفعہ 164 کے تحت عدالت میں اعتراف جرم کر لیا ہے۔ملزمان کو دہشت گردی کی مذکورہ بالا کارروائیوں کے لیے عدالت میں مقدمے کا سامنا کرنا پڑے گا۔
ًخیال رہے کہ سی ٹی ڈی نے اس سے قبل بھی اسی طرح بلوچستان بھر میں پہلے سے لاپتہ افراد کو جعلی مقابلوں میں قتل کرنے میں یا جعلی گرفتاری کرنے میں ملوث رہا ہے۔