جبری طور پر لاپتہ افراد کی بازیابی کے لئے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے احتجاج کو 4550 دن مکمل ہوگئے –
سندھ کے مرکزی شہر کراچی میں پریس کلب کے سامنے احتجاجی کمیپ میں آج لیاری کراچی سے سیاسی و سماجی کارکناں بلوچ یکجہتی کمیٹی کراچی کے ڈپٹی آرگنائزر عبدالوہاب بلوچ، بانک ماہگنج بلوچ، سونی بلوچ اور دیگر نے آ کر اظہار یکجہتی کی-
وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ بلوچ خواتین کا اغواء بلوچ سماج کے لئے کوئی نیا واقعہ نہیں ہے مگر یہ حقیقت ہے کہ بلوچ قوم جب تک اس ریاست کا غلام ہے اس کی غیرت پر یونہی حملے ہوتے رہینگے-
انکا کہنا تھا کہ اس سنگین ترین مسئلہ پر اشد غور وفکر کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ بلوچوں کی سیاسی و پرامن جدوجہد حکمرانوں کے لئے موت بنتا جا رہا ہے دشمن اپنے موت کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہے تمام تر جنگی قوانین کو توڑ کر ظلم کی انتہا کو پہنچ چکا ہے آنے والے وقتوں میں بلوچ گھر و گدانوں میں گھس کر عورتوں بچوں کو نشانہ بنانے یا اغواء کرنے کے واقعات میں شدت کے ساتھ اضافہ ہو گا اور دشمن کے ظلم و جبر سے کوئی بھی بلوچ محفوظ نہیں ہوگا –
انہوں نے کہا کہ ہمیں آنے والے وقتوں کا ادراک کر کے سخت حالات کا مقابلہ کرنے کے لئے اپنے آپ کو ذہنی حوالے سے تیار رکھنا ہوگا بلوچ قومی پرامن جدوجہد اور بلوچ لاپتہ افراد کی بازیابی کو مزید اور منظم اورمستحکم رکھنے کے لیے بلوچ عوام اپنے عوامی طاقت کو استعمال کرتے ہوئے حکمرانوں کے ہر ایک سازش کو ناکام بنانے کے ساتھ بلوچ لیڈرشپ تنظیم پارٹیوں کے اتحاد کے لئے زور دیں ان کے درمیان اتحاد کے لئے موثر کردار ادا کریں اگر ہم ایسا کرنے میں ناکام رہے تو شاید ہمیں فرزندوں کی بازیابی میں ایک اور صدی درکار ہوگا اور ہمارے پاس اتنا وقت نہیں ہے –
ماما قدیر نے مزید کہا کہ ہر شخص کو چاہیے کہ وہ کوئی بھی ہے یہ اجازت ہونی چاہئیے کہ وہ ہماری کمزوریوں اور کوتاہیوں سے آگاہ کریں اگر وہ سچ کہتا ہے تو ہمیں اپنی اصلاح کرنی چاہئے اور اگر اس کی تجویز سے تنظیم یا عوام کو فائدہ پہنچ رہا ہے تو اس پر عمل کرنا چاہیے پرامن جدوجہد کارکنان اپنے عمل کو عوامی مفادات سے جوڑتے ہیں اپنے مقصد کے حق پر ہونے پر مکمل یقین رکھتے ہیں اور کسی بھی ایسے خیال نظریے سے منہ نہیں موڑ تے جو عوامی مفادات کے حق میں ہو-