بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں لاپتہ بلوچوں کی بازیابی کے لیے سرگرم تنظیم وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کا احتجاجی کمیپ پریس کلب کوئٹہ کے سامنے آج4503 دن جاری رہا –
احتجاجی کمیپ میں تنظیم کے چیئرمین نصراللہ بلوچ، وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ اور لاپتہ افراد کے لواحقین اپنے پیاروں کی تصاویر لے کر گمشدہ افراد کی بازیابی کا مطالبہ کررہے ہیں – اس موقع پر مختلف مکاتب فکر کے لوگوں نے لواحقین سے اظہار یکجہتی کیلئے کمیپ کا دورہ کیا –
اس موقع پر ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کا سلسلہ بدستور جاری ہے –
انہوں نے کہا کہ دو طالب علموں کی جبری گمشدگی کے خلاف جامعہ بلوچستان کے طلباء مسلسل 20 دنوں سے سراپا احتجاج ہیں اور صوبے کے تمام تعلیمی اداروں میں تعلیمی سرگرمیاں معطل ہیں لیکن حکومت ٹھس سے مس نہیں ہورہی ہے –
انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں جبری گمشدگیاں خوف ناک صورتحال اختیار کرچکے ہیں، ہر مکاتب فکر کے لوگوں میں خوف ہے کہ کہیں ان کو لاپتہ نہیں کیا جائے –
وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے رہنماؤں نے ایمنسٹی انٹرنیشنل کی جانب سے لاپتہ افراد کے متعلق حالیہ رپورٹ کو سراہتے ہوئے کہا کہ تمام انسانی حقوق کے ادارے اس سنگین جرم پر پاکستان کو پابند کریں کہ جبری گمشدگیوں کا سلسلہ بند ہونا چاہیے –
انہوں نے کہا کہ آج بلوچستان میں خوف کا عالم ہے لوگ شدید ذہنی دباؤ کے شکار ہورہے ہیں۔ انکا کہنا تھا کہ اس سنگین جرم کے خلاف بلوچ قوم کو متحد ہوکر آواز اٹھانے کی ضرورت ہے –