ایمنسٹی انٹرنیشنل کا پاکستان سے جبری گمشدگیاں ختم اور ذمہ داروں کیخلاف مقدمہ چلانیکا مطالبہ

255

ایمنسٹی انٹرنیشنل نے پاکستانی حکام پر زور دیا کہ وہ مشتبہ عسکریت پسندوں کو کئی برس تک بغیر مقدمہ چلائے جبری طور پر لاپتا کرنا بند کریں۔

’زندہ بھوت‘ کے عنوان سے ایک رپورٹ میں انسانی حقوق گروپ نے گمشدہ افراد کے اہل خانہ کو اپنے زیر حراست رشتہ داروں کے بارے میں معلومات حاصل کرنے میں درپیش مشکلات کو بیان کیا ہے۔

اس میں کہا گیا کہ امریکا کی زیر قیادت دہشت گردی کے خلاف جنگ کے آغاز سے لے کر اب تک سینکڑوں پاکستانی حقوق کے محافظ، کارکن، طلبہ اور صحافی لاپتا ہو چکے ہیں۔

ایسے ہی حراست میں لیے گئے افراد میں ادریس خٹک بھی تھے جو 2019 میں ملک کے شمال مغرب میں سفر کے دوران لاپتا ہو گئے تھے۔

کئی ہفتوں بعد حکام نے تسلیم کیا کہ وہ غداری کے غیر متعینہ الزامات کے تحت حراست میں لیے گئے۔

ادریس خٹک لاپتا ہونے سے پہلے ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ہیومن رائٹس واچ کے لیے کام کرتے تھے۔

جبری گمشدگی ایک ظالمانہ عمل ہے جس نے گزشتہ دو دہائیوں کے دوران پاکستان میں سینکڑوں خاندانوں کو ناقابل تلافی تکلیف دی ہے۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل کے قائم مقام جنوبی ایشیا کے محقق ریحاب ماہور نے کہا کہ اپنے پیاروں کو کھونے اور ان کے ٹھکانے یا حفاظت کے بارے میں طویل عرصے تک لاعلم رہنے والے خاندان اور دیگر افراد کے لیے خرابی صحت اور مالی مسائل کا باعث بھی بنتا ہے۔

انہوں نے زیر حراست افراد کو رہا کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہاکہ پاکستان تمام لاپتا افراد کے بارے میں ان کے اہلخانہ کو آگاہ کریں۔

گروپ نے اس طرح کے جبری گمشدگیوں سے منسلک اہلکاروں پر بھی مقدمہ چلانے کی اپیل کی۔

حکومت کی جانب سے فوری طور پر کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا جو ایسے الزامات کی متعدد مرتبہ تردید کرتی آئی ہے۔

اس ضمن میں کیا مؤقف اختیار کیا جاتا ہے کہ زیادہ تر لاپتا افراد حالیہ برسوں میں عسکریت پسند گروپوں میں شمولیت کے لیے افغانستان گئے تھے۔

اگرچہ عدالت کی منظوری کے بغیر حراست میں لینے کی ممانعت ہے تاہم حکام نے نجی طور پر اعتراف کیا ہے کہ خفیہ ایجنسیاں حراستی مراکز میں غیر متعینہ تعداد میں مشتبہ افراد کو روک رہی ہیں۔