غلامی کی زنجیروں میں جکڑا ہوا سیاست – زیرک بلوچ

280

غلامی کی زنجیروں میں جکڑا ہوا سیاست

تحریر: زیرک بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

سماجی حیوان کا المیہ یہی ہے کہ وہ خواہشات و اسکے تکمیل کے لئے سماج سے بالاتر ہوکر اپنے وجود کی انفرادی تکمیل کیلئے نہ صرف خواہشات کی دلدل میں دھنستا جاتا ہے بلکہ وجودی سطح پر ایک بیگانگی کا شکار ہوکر وجود کے جوہر ( اجتماعیت) سے کٹ کر سوچنے و سمجھنے کی ناکام کوشش کرتا رہتا۔ وجود کے گرد گھومنے والی تمام خواہشات و جذبات فرد کو تاریکی کی خلا میں دھکیلتے رہتے ہیں۔ فرد کا وجود اس ایک مقررہ وقت تک اپنے سماج سے، اپنے تاریخی وجود سے اسُ وقت تک بیگانہ رہتا ہے جب تک معروض سے ہر آنے والے تاثرات کو اپنے وجود کے اندر محسوس کر کے اپنے وجود کو معنی سے پُر کرسکتا ہے۔

فرد کا وجود کسی بھی سماج میں ایک اکائی کی مانند ہوتا ہے جہاں سماج و فرد ایک اکائی کی صورت میں ساتھ چل کر خود کو معنی دیتے رہتے ہیں جو تمام تر انسانی وجود کو ایک سماجی حیوان بنانے میں موثر و کارگر ثابت ہوتی رہتی ہے۔ جہاں فرد شعوری طور پر اپنے وجود کو سماجی و قومی سانچوں میں ڈھل کر اپنے کردار سے سماجی و قومی ارتقاء میں ایندھن فراہم کرنے کا کام کرتا رہتا ہے۔

بلوچ سماج میں ہر فرد کے وجود کو ایک تاریخی و اخلاقی ذمہ داری دیا گیا جہاں فرد انفرادی طور پر اپنے وجود کو کسی خلا میں کبھی محسوس نہیں کرسکتا اسکے وجود کے جوہر میں اسکا وطن، ثقافت، زبان، اخلاقیات و تاریخ شامل ہیں۔ جو ایک فرد کو سماجی حیوان بنانے میں احسن طریقے سے اپنا کردار ادا کرتا رہا ہے۔ کسی بھی نوآبادکار ( colonizer) کی سب سے بڑی کوشش یہی ہوتی ہے کہ وہ colonized nation کو اسکے اپنے جوہر و وجود سے بیگانہ کرکے اپنے قبضے کو مزید طاقت فراہم کرتا رہا۔ سنڈیمن اسکولنگ سسٹم سے لیکر پاکستانی و ایرانی قابضین تک سب نے بلوچ قوم کی قومی شعور کو نقصان سے دوچار کرنے کے لئے قومی و تاریخی فرائض سے بیگانہ کرکے بیرونی اصطلاحات کے چنگل میں پھنسانے سے لیکر قبائلی و دیگر ناموں سے نوازے رکھا جو کہ نہ صرف قومی مزاج کے برعکس ہے بلکہ قومی شعور کے بھی منافی ہے۔

مختلف مشاہدات و مطالعات سے یہی پتہ چلتا ہے کہ بلوچ سماج ایک اخلاقی و مورل Moral کمیونٹی کی بنیاد پر کھڑا ہے جو بلوچ و بلوچیت کی بنیاد پر ہیں۔ اسکی تاریخی و موجودہ بے شمار مثالیں موجود ہیں ( کسی بھی قسم کی حاکمیت کو قبول نہ کرنا، اگر کسی کے ہاتھ میں کسی کو کوئی نقصان پہنچے تو بہت عرصوں بعد اگر مارنے والے سے سامنا ہوجائے اگر وہ عاجز و عمر رسیدہ ہوچکا ہے تو صرف یہ کہنا کہ تم شکست کھا چکے ہو یوں جنگ کا خاتمہ )۔ بلوچ سماج و معاشرہ ایک اخلاقی وجود کی مانگ کرتا ہے تاریخی طور پر نہ کہ مال و دولت رکھنے والے یا رتبہ رکھنے والے شخص کی۔ انگریزی دور غلامی سے لیکر آج تک قابضین کی ہمیشہ یہی کوشش رہی ہے کہ وہ بلوچ قوم و سماجی و معاشرتی عناصر کو، آنے والے نسل کو کرپٹ کرکے ایک اخلاقی نہیں بلکہ ایک غیر اخلاقی وجود کی بنیاد رکھ سکیں۔

سنڈیمن اسکولنگ سسٹم پالیسی کو اگر باریکی سے دیکھا جائے تو انگریز ہمیں ایک زہر کی طرح جو پھیلنے کی فطرت رکھتا ہے بلوچ معاشرے کو کرپٹ و کمزور کرنے کے لئے اسی کوشش میں جُت کر جہاں بلوچ سماجی و معاشرتی زندگی ایک اخلاقی وجود کی لوٹ مار میں مصروف عمل ہے وہی انگریز Gold and Gun پالیسی پہ عمل پیرا ہوکر ایک غیر اخلاقی وجود کو سامنے لاکر کرپشن کی بنیاد رکھ کر تمام قومی Definitions کو کرپٹ کرنے میں جت جاتا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ definitions کرپٹ یا تبدیل کرکے نوآبادکار کو کیا کیا فوائد مل سکتے ہیں ؟ اسکے تجزیہ سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ definitions کا تعلق قومی مزاج سے ہے کسی بھی قوم سے اسکے مزاج کو چھین کر بیرونی مزاجوں و اطوار کا اثر بالواسطہ یا بلاواسطہ directly and indirectly قومی مزاج کو تباہ کرکے اخلاقی وجود کے ارتقاء کے راستوں میں موڈرن ازم و لبرل ازم و new definition کا غلبہ قائم ہوسکیں جو قابض کو بغیر کسی طاقت کے زور پر اور بغیر کسی مزاحمت و جنگ سے آسانی سے اپنے قبضے کو مزید مستحکم کرتی ہے۔

ہر قابض کی اولین کوشش یہی ہوتی ہے کہ وہ مفتوح قوم کو اسکے تاریخ، روایات، کلچر و ثقافتی essence(روح) سے علیحدہ کرکے اسکے قومی مزاج کو کرپٹ کرکے بیرونی مداخلت کے ذریعے قومی شعور کے فطری ارتقائی عمل میں قدغن لگا سکیں۔ تاریخ میں شاید ہی ایسا کوئی مثال ہو جہاں قابضین نے قومی شعور و قومی مزاج کے خاتمے کے لئے کوئی نرم ہاتھ رکھا ہو۔ کیونکہ قومی شعور کی علمیت ہی کہ بنیاد پر ہم بلوچ اور پنجابی و گجر تضادات کو recognized کرسکتے ہیں۔ قومی شعور ہی کہ بنیاد پر ھم بحیثیت قوم اپنی تاریخی سلسلے و ارتقائی عمل میں اپنے قومی شناخت کی بنیاد پر جدوجہد کو مزید مستحکم کرسکیں گے۔ قابض کی چالبازیوں و پالیسوں کا اگر بغور مطالعہ و تجزیہ کیا جائے تو برٹش سامراج کی برصغیر پہ نوآبادیاتی نظام میں اسکی جھلکیاں نمایاں نظر آئیں گی جہاں ایک جانب برصغیر کی تہذیب کو مٹا کر اسے نام نہاد تہذیب و جمہوریت کے نام پہ خود ہی گراؤنڈ مہیا کرنا محکوم کی زبان سے اپنی ہی بات کہلوانا، قومی و تاریخی و جغرافیائی تبدیلیاں کرکے اجتماعی حساسیت کو ختم کرنے جیسے ہتھکنڈے جو بلآخر مذہبی شدت پسندی کے طور پر ابھری۔

برٹش سامراج کی بلوچ ریجن میں سامراجی پالیسیوں کا تجزیہ کیا جائے تو سنڈیمن اسکولنگ سسٹم کے تحت اُس تاریخی عمل و قومی ارتقاء کے راستوں میں انفرادیت و نام نہاد ( خود ساختہ) قبائل نظام نافذ کرکے اس ارتقائی عمل پہ قدغن لگانے کی کوشش کی گئی جس میں بلوچ بحیثیت ایک فرد نہیں بلکہ ایک اجتماعی شعور بن کر ابھرتا ہو۔

جنگ عظیم دوئم کے بعد پوری دنیا میں ایک نئی سامراجی حربے کی بنیاد رکھی گئی جہاں برٹش سامراج کی تمام تر نوآبادیاں امریکی سامراج کو منتقل ہونے کے بعد” ترقی ” کے نام پر ایک گلوبل کیپٹلزم ابھرا جہاں پوری دنیا کے اقوام ایک جانب قومی آزادی جیسے نعمت سے ہمکنار ہورہے تھے تو دوسری جانب نام نہاد لبرل و سوشل ڈیموکریسی کی نام پر جس کے اثرات ان ممالک پہ بھی نظر آنے لگے جنہیں امریکی سامراج نے ” غیر ترقی” یافتہ کا نام دے رکھا تھا چونکہ یہ نام بھی وہی عطا کرتے ہیں جو لوٹ و کھوسٹ کے غرض سے حملہ آور کی صورت میں آتے ہیں۔ جیسے تاریخ کے سبق سے سیکھا جاسکتا ہے وہی دوسری جانب بزور شمشیر طاقت غلام بنائے رکھنے کی خاطر اور اپنے قبضے کو مزید مستحکم کرنے کی تگ ودو کے ساتھ کالونائزڈ قوم کی فطری جدوجہد ( جو قومی مزاج و اخلاقیات) کے راستوں میں اصطلاحات و کرپشن کے ذریعے اسکے معاشی، اخلاقی و روحانی قتل عام کا بازار گرم کرکے اسکے قومی مزاج کے برخلاف نام نہاد تہذیب، پرامن و نام نہاد انصاف پر مبنی سیاست کا ایک گندہ کھیل رچایا گیا چونکہ قابضین کے اولین کوشش یہی ہوتی ہے کہ کسی نہ کسی طرح قومی شعور کو diverse کرکے اسے بین الاانسانی بنا کر قومی جہد جو عمومی تضادات کی بنیاد پر ابھرا ہے اسے روکھا جاسکیں۔ پنجابی و گجر کے لئے سب سے بڑا ڈر یہی ہے کہ بلوچ اس تضاد کو پہچان نہ لیں اگر پہچان لیا تو تمام مصنوعی لائنوں سے بڑھ کر ایک قوم و قومی ریاست کی بابت سوچنا شروع کر دیگا جو تمام سامراجی طاقتوں کے لئے یقینا ایک نیک شگونی کی بات نہیں۔

بیسویں صدی کو قوموں کی آزادی کا صدی کہا جاتا ہے لیکن ان آزاد قوموں میں سے کوئی بھی سامراجی علمیت (لبرل) سے محفوظ نہیں رہ سکا۔ کیپیٹلزم کے کٹر مخالف چین اور روس بھی بلاآخر اس کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوئے۔لیکن وہ اقوام جن کی بنیاد اخلاقی اقدار پر ہیں۔اُن اقوام کے لئے اجتماعیت کے بغیر جو ان کے اپنے قومی تاریخ سے ماخوذ ہو کہ علاؤہ کوئی اور راستہ اختیار کرنا قومی شناخت کے لئے خودکشی کے مترادف ہوگا۔ سردار خیر بخش مری کا تجزیہ ہے کہ پنجابی اور بلوچ میں واضح فرق ان کے قومی اقدار کا ہے۔ یعنی پنجاجی اپنے معلوم تاریخ میں طاقتور کے ساتھ مفاہمت کرتا رہا ہے۔لیکن بلوچ بحثیت قوم کبھی بھی استعماری قوتوں کے ساتھ مفاہمت نہیں کی ہے۔ آزادی اور برابری جو کہ بلوچ قومی مزاج میں اس کے تاریخی کردار کی وجہ سے رچ بس گئے ہیں۔جسے انگریز نے پسپا کرنے کی کوشش کی اور اسی نسخے کو پنجابی بھی استعمال کرنے کے ساتھ ساتھ مغرب کی ایجاد کردہ علمیت کے زریعے بھی سامراجی قوتیں ہمیں فتح کرنے کی کوششوں میں مصروف با عمل(بلوچ معاشرے میں سامراجی این جی اوز کے کثرت سے وارد ہونا ان کی ایک واضح مثال ہے) ہیں۔ہمھیں سنجیدگی کے ساتھ سوچنے کی ضرورت ہے کہ کئی امریکی فیک ڈیموکریسی اور عالمی سامراجی قوتوں کی خوشنودی حاصل کرنے کی کوششوں میں بلوچ قومی مزاج (جس کے اختیار کئے بغیر ڈی کولونائزیشن کا عمل ممکن نہیں) کو داؤ پر نہیں لگا رہے؟ یا بیسویں صدی میں آزاد ہوئے قوموں کی طرح سامراجی علمیت کا شکار نہیں ہو رہے؟کئی ہم لبرل انفرادیت کے شکنجے میں آ کر قومی اجتماعیت کے ساتھ کھلواڑ نہیں کر رہے ہیں؟

یا ڈی کولونائزیشن جیسے پیچیدہ عمل کو ہم صرف سرسری انداز میں بزور شمشیر تک محدود نہیں رکھ رہے؟ بصورت دیگر ہمیں بلوچ اجتماعیت پسندانہ مزاج و اقدار سے رجوع کرنے کی ضرورت ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں