گوادر بندرگاہ، سکیورٹی ایک مسئلہ ہے، انٹرنیٹ کی سہولت بھی نہ ہونے کے برابر ہے – سرمایہ کار

776

گوادر بندرگاہ کی تعمیر کا معاہدہ چین کے ساتھ کیا گیا ہے۔ چالیس سال تک آمدن کا 91 فیصد چین کی ملکیت ہے اور پاکستان صرف نو فیصد کا حصہ دار ہے۔ گوادر بندرگاہ کی آمدن بڑھانے کے لیے حکومت پاکستان تاجروں سے درخواست کر رہی ہے کہ درآمدات اور برآمدات کے لیے گوادر بندرگاہ استعمال کریں۔ انہیں بندرگاہ پر سامان رکھنے کے لیے تین ماہ کے لیے مفت گودام بھی دیے جائیں گے۔ بندرگاہ اور مخصوص گزرگاہوں پر کنٹینرز کو سکیورٹی بھی دی جائے گی۔ ٹیکس چارجز بھی کم کیے جائیں گے۔ لیکن تاجر برادری ماننے کو تیار نہیں، کیونکہ وہ بھی عمر کی طرح کروڑوں روپوں کا نقصان اٹھا چکے ہیں۔

انڈپینڈنٹ اردو کے مطابق عمر صفدر پاکستان کے صوبہ پنجاب گجرات کے ایک تاجر ہیں جو 30 سال سے درآمدات، برآمدات، مینوفکچرنگ اور رئیل اسٹیٹ کے کاروبار سے جڑے ہوئے ہیں۔

پاکستانی پرکشش آفرز کے پیش نظر عمر نے گوادر فری زون میں سرمایہ کاری کر رکھی ہے اور تین مرتبہ تجارت کے لیے گوادر بندرگاہ استعمال کرچکے ہیں، جوکہ نقصان دہ ثابت ہوئی۔ گوادر فری زون میں جو زمین خریدی تھی اس کے بارے میں بورڈ آف انویسٹمنٹ (بی او آئی) نے رپورٹ جاری کی ہے کہ یہ زمین ہیوی مشینری کے استعمال اور بڑی انڈسٹری کے قیام کے لیے موزوں نہیں ہے۔

عمر کا کہنا ہے کہ گوادر کا موازنہ دبئی اور سنگاپور سے کیا جاتا ہے لیکن اس میں جدید بندرگاہوں والی کئی سہولتیں سرے سے موجود ہی نہیں ہیں۔ سڑکوں کا نظام بوسیدہ ہے۔ بجلی اور گیس کے شدید مسائل ہیں۔ پینے کا پانی میسر نہیں۔ انفراسٹرکچر ابھی تک قائم نہیں ہوسکا۔ سکیورٹی ایک مسئلہ ہے اور انٹرنیٹ کی سہولت بھی نہ ہونے کے برابر ہے۔ اگر کسی وجہ سے کنٹینر پھنس جائے تو اسے کلیر کروانے کے لیے گوادر جانا پڑتا ہے جہاں رہائش کے لیے ایک بھی مناسب ہوٹل نہیں ہے۔ جسے حکومت پانچ ستارہ ہوٹل کہتی ہے اسے کسی بھی زاویے سے پانچ ستارہ ہوٹل نہیں کہا جاسکتا۔

چئیرمین گوادر پورٹ نصیر خان کاشانی میڈیا پر ان کمزوریوں کا اعتراف کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ان کے مطابق 9200 ہیکٹر میں سے صرف 24 ہیکٹر آپریشنل ہے۔ ان حالات میں کاروباری حضرات مزید سرمایہ گوادر منتقل نہیں کرسکتے۔

جبکہ رواں مہینے جاپان سے ہفتہ وار شائع ہونے والے دنیا کے سب سے بڑے مالیاتی اخبار “نکی ایشیاء“ نے دعویٰ کیا تھا کہ پاکستان کے زیر انتظام بلوچستان میں چائنا بیلٹ اینڈ روڈ پروجیکٹ کے تحت تعمیر ہونے والے چائنا پاکستان کوریڈور بلوچستان میں جاری شورش کے باعث کراچی کے ساحل پر منتقل کیا جارہا ہے۔

اخبار کے مطابق ایک غیر متوقع فیصلے میں پاکستان اور چین نے جنوبی ساحلی علاقے بلوچستان میں جاری مسائل کے بعد ممکنہ طور پر گوادر سے پاکستان میں بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کے مرکزی مرحلے کے طور پر کراچی ساحل کو ترقی دینے پر اتفاق کیا ہے۔

خیال رہے رواں سال اگست کے مہینے میں چائنیز انجنیئرز اور ورکروں کے گاڑیوں کے قافلے کو گوادر میں ایک خودکش حملے میں نشانہ بنایا گیا تھا جس کی ذمہ داری بلوچ لبریشن آرمی نے قبول کی تھی۔

سی پیک کو بلوچ سیاسی و عسکری حلقوں کی جانب سے استحصالی منصوبہ قرار دیا جاچکا ہے جس کے ردعمل میں سیاسی حلقوں کی جانب سے اندرون و بیرون ملک مختلف فورمز پر احتجاج کرنا اور بلوچ مسلح آزادی پسند جماعتوں کی جانب سے سی پیک و دیگر تنصیبات کو نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔

سی پیک، سیندک اور دیگر پراجیکٹس کے باعث بلوچستان میں چائنیز انجینئروں و دیگر اہلکاروں پر سال 2018 سے خودکش حملوں میں شدت دیکھنے میں آئی ہے۔

سال 2018 کو اگست کے مہینے میں بلوچستان کے ضلع دالبندین میں چائنیز انجینئروں کے بس کو، اُسی سال 23 نومبر کو کراچی میں چائنیز قونصلیٹ کو اور 2019 کے 11 مئی کو گوادر میں پانچ ستارہ ہوٹل کو بلوچ خودکش حملہ آوروں کی جانب سے نشانہ بنایا گیا جبکہ گذشتہ سال پاکستان اسٹاک ایسکچینج کو کراچی میں خودکش حملہ آوروں نے نشانہ بنایا تھا۔

مذکورہ تمام حملوں کی ذمہ داری بلوچ لبریشن آرمی نے قبول کی۔ تنظیم کے ترجمان جیئند بلوچ نے بیانات میں واضح کیا کہ مذکورہ حملے بی ایل اے کے مجید بریگیڈ کے ارکان نے کی۔ علاوہ ازیں بی ایل اے سمیت بلوچستان میں سرگرم بلوچ مسلح آزادی پسندوں کی جانب سے بیرونی سرمایہ کاروں کو مختلف اوقات میں بلوچستان میں حملوں کا نشانہ بنانے کا بھی عندیہ دیا گیا ہے۔