بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے مرکزی چیئرمین ظریف رند اور دیگر مرکزی رہنماؤں نے کوئٹہ پریس کلب میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے تنظیم کی مرکزی کونسل سیشن اور آئندہ کے لائحہ عمل کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ عہد کے اندر دنیا شدید بحران کا شکار ہے، ہر طرف عدم استحکام، خلفشار اور خانہ جنگیوں کی کیفیت پیدا ہو چکی ہے، بین الاقوامی نظام سرمایہ داری کے چیمپیئن امریکہ بہادر اپنے معاشی بحران اور داخلی تضادات کے سبب اب دنیا پر اپنا اجارہ برقرار رکھنے میں ناکام ہوتا دکھائی دے رہا ہے جبکہ چین دوسری بڑی طاقت کے طور پر ابھر کر سامنے آئی ہے-
انہوں نے کہا کہ عالمی سطح پر طاقتوں کے توازن میں ایک بار پھر بڑی تبدیلی رونماء ہو چکی ہے اور اس کے اثرات چھوٹے بڑے ممالک پر پڑ رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ امریکہ کا افغانستان سے انخلاء اور طالبان کا کابل پر قبضہ نے خطے کی صورتحال کو یکسر بدل کر رکھ دیا ہے، گزشتہ چار دہائیوں سے جنگ سے گزرنے والی افغان عوام ایک پرامن افغانستان کیلئے ترس رہی ہے مگر استعماری قوتوں کا جنگی آکھاڑہ بننے والی یہ ملک مسلسل بالواسطہ یا بلاواسطہ جنگوں کی آماجگاہ ہے جس سے پورا جنوبی ایشیاء اور سنٹرل ایشیاء بھی عدم استحکام و خلفشار کی کیفیت سے دوچار ہے-
گزشتہ عرصے کے دوارن افغانستان پر سامراجی یلغار سے بلوچستان ڈیموگرافی تبدیلی کا شکار ہو گئی ہے اور اب دوبارہ بڑے پیمانے پر جنگ زدہ افغان بلوچستان کا رخ کر رہے ہیں جس سے پہلے سے تباہ حال کیفیت میں مبتلا بلوچستان مزید عدم توازن اور تباہی کی جانب گامزن ہوگی۔
بی ایس او کے چیئرمین نے کہا کہ بلوچستان از خود ایک جنگی صورتحال سے دوچار ہے اور یہاں صحت و تعلیم، مواصلات و منڈی اور بنیادی انفراسٹرکچر تباہ حال ہے۔ غربت، بھوک، افلاس اور بیروزگاری کے طوفان نے عوام کا جینا دوبر کر دیا ہے۔ آئے روز نوجوانوں کی جبری گمشدگی اور قتل و غارت نے عوام کو ذہنی کوفت میں مبتلا کر دیا ہے۔
انکا کہنا تھا کہ تعلیمی ادارے اس وقت جیل خانہ جات کی صورت میں چلائے جا رہے ہیں جہاں طلباء کو محض ایک قیدی اور گاہک کے طور پر دیکھا جاتا ہے، انکی بنیادی حقوق پر ڈاکہ ڈالا گیا ہے۔ یونین سازی اور ادارے کے فیصلوں میں طلباء کی شراکت ختم کر دی گئی ہے جبکہ استحصال اور لوٹ کا بازار گرم ہے۔
انہوں نے کہا کہ بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن بحیثیت طلباء تنظیم کے قوم کے نوجوانوں کے حقوق کے پاسبانی کی علمبردار بھی ہے اور انہیں قومی و طبقاتی شعور و نظریاتی تربیت کرنے والی کیڈرساز ادارہ بھی ہے جہاں سے باشعور و بےباک قیادت پیدا ہوتی آئی ہے جو جبر و استحصال اور قومی محکومی کے خلاف سینہ سپر ہے۔ گزشتہ نصف صدی سے زائد عرصے سے برسرِ پیکار تنظیم نے قابلِ فخر کارنامے سرانجام دیئے ہیں اور ہر موڈ پر قوم کے حقوق کی پاسبانی کی ہے۔ اور یہی تسلسل پورے جوش و جذبے سے جاری ہے۔
موجودہ حالات کے تناظر میں بی ایس او اپنے واضح اور جامع پروگرام کے تحت جدوجہد کے سفر کو آگے بڑھا رہی ہے اور منزل مقصود کے حصول تک یہ کارواں جاری رہے گا۔
انہوں نے مذید کہا کہ آج پریس کانفرنس کا مقصد آپکے توسط سے عوام کی وسیح تر حلقوں تک یہ پیغام پہنچانا ہے کہ بی ایس او کی موجودہ قیادت انتہائی دگرگوں حالات کے باوجود تنظیم کو اس کے نظریاتی بنیادوں پر تعمیر کرتے ہوئے منظم و فعالیت تک پہنچا چکی ہے اور گزشتہ قومی کونسل سیشن میں منتخب قیادت اپنا دورانیہ پورا کر چکی ہے۔ اسی اثناء میں گزشتہ روز مرکزی کمیٹی کے اجلاس میں فیصلہ لیا گیا ہیکہ اسی سال نومبر کے مہینے میں بی ایس او کا بائیسواں قومی کونسل سیشن کا انعقاد کیا جائیگا جوکہ طلباء سیاست کو انقلابی جست کے طور پر بلند ترین سطح تک پہنچانے کا ضامن بنے گی۔
بی ایس او کا بائیسواں قومی کونسل سیشن ایک ایسے وقت میں منعقد ہونے جا رہی ہیکہ جب طلبہ طاقت منتشر کیفیت میں ہے اور اس قومی کونسل سیشن کے مقاصد یہ ہیں کہ طلباء کو ایک منظم قوت فراہم کی جا سکے اور طلباء کو درپیش تمام چیلنجز سے نمٹنے کیلئے ایک پختہ طلبہ قیادت تشکیل دیا جائے۔ جوکہ یقینی طور پر بی ایس او کے بائیسویں قومی کونسل سیشن میں کامیابی سے تشکیل پائے گی اور جبر کی زنجیروں کو توڑنے والی قوت قائم ہوگی۔