طارق جمیل کو یہ بھی بتا دو کہ گم شدہ لوگ اس ملک کا سب سے بڑا المیہ ہیں
تحریر:محمد خان داؤد
دی بلوچستان پوسٹ
جب فاروق عادل مولانا طارق جمیل سے سوال کرتا ہے کہ آپ گم شدہ لوگوں کے لیے بات نہیں کرتے؟ تو طارق جمیل بہت ہی معصومیت سے سوال نما جواب دیتے ہیں کہ کون سے گم شدہ لوگ؟
اس سوال نما جواب پر فاروق عادل جواب دیتا ہے کہ جن کے لیے ان کے پیارے بھوک ہڑتالیں کرتے ہیں،احتجاج کرتے ہیں اور پریس کلبوں کے دروں پر بیٹھ جا تے ہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ طارق جمیل اتنا ہی سادہ ہے یا وہ اس سوال پر بننے کی کوشش کررہے ہیں؟
وہ طارق جمیل جو خود اپنے منہ سے کہہ رہے ہیں کہ وسیم سجاد سے لیکر عمران خان تک سب صدر اور وزراء سے ان کا تعلق رہا۔وہ طارق جمیل جو بہت اچھے مقرر ہیں۔وہ طارق جمیل جو عمران خان کے یار ہیں اور عمران خان کی سرکار کی تائید کرتے نظر آتے ہیں۔وہ طارق جمیل جو عمران خان کو صادق اور امین کہتے نہیں تھکتے۔وہ طارق جمیل جو ملک کے وزیراعظم کو ریاست مدینہ کے والی سمجھتے ہیں۔ وہ طارق جمیل جن کی زباں پر علمی نہریں بہتی نظر آتی ہیں۔وہ طارق جمیل جس کو شاہی پروٹوکول ملا ہوا ہے۔ وہ طارق جمیل جب فارق عادل کے اس سوال پر پھنستے نظر آتے ہیں کہ آپ اتنی بڑی گاڑی،شاندار لباس،مسلح گن مین اور پروٹوکول میں کیوں نظر آتے ہیں آپ تو ایک اسلام کے خادم ہیں تو طارق جمیل ہنس کر جواب دیتے ہیں میں اب گدھے اور خچر پر سواری نہیں کرسکتا۔
وہ طارق جمیل جب ان سے حقوق العباد کے بارے میں سوال کیا جاتا ہے تو اپنی علمی قابلیت پر اس سوال کو گول کر جاتا ہے۔ وہ طارق جمیل جب ان سے اظہار رائے کی آزادی پر سوال ہوتا ہے تو اسے بھی گول کر جاتا ہے
وہ طارق جمیل جب اس سے عورتوں کے حقوق اور عورتوں کے قتل پر بات ہو تی ہے تو پھر علمی قابلیت کام آتی ہے اور جواب چنے کے بجائے گندم آتا ہے
اور جب ان معصوم سے مسنگ پرسن گم شدہ لوگوں کے بارے میں سوال ہوتا ہے تو چونک جاتا ہے بہت ہی معصوم بنتا ہے یا بننے کی اداکاری کرتا ہے اور سوال نما جواب دیتا ہے
”کون سے گم شدہ لوگ؟“
تو فارق عادل بھی یہ سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ وہ انسان جو نوے کی دہائی کے وسیم سجاد سے لیکر دو ہزار اکیس کے عمران خان تک سب صدر اور وزراء اعظم کا یار رہا ہے وہ کیسے کہہ رہا ہے کہ”کون سے گم شدہ لوگ؟“کیا طارق جمیل اتنا معصوم اور اتنا سادہ ہے؟
کراچی کے ایک پیر کے بارے میں سنتے تھے کہ وہ اتنے معصوم ہیں کہ انہیں یہ بھی نہیں معلوم کہ دس کے نوٹ کا رنگ کیسا ہوتا ہے اور اس دس کے نوٹ میں کتنے صفر ہو تے ہیں پھر جب کراچی کے پیر کے اکاؤنٹ چیک کیے گئے تو وہ ایک ارب سے زائد کے جائداد کا مالک نکلا۔ کیا طارق جمیل بھی کراچی والے پیر کے جیسے سادہ ہیں؟
طارق جمیل زمانے کے آدمی ہیں زمانہ شناس ہیں تو وہ اس ملک کے سب سے بڑے المیے سے کیسے واقف نہیں جس المیے نے ہماری ماؤں کو مسافر بنا دیا،ہماری بیٹیوں کو روڈوں پر لا پھینکا،ہماری بچیوں کا مستقبل ختم ہو گیا۔ ہماری ماؤں کے گھر تباہ و برباد ہو گئے۔ہماری بہنوں کے نصیب میں ایسے سفر آئے جن سفروں کی کوئی منزل نہیں اور طارق جمیل ملک کے اتنے بڑے المیے سے نا واقف ہیں!
نہیں میر اتنے سادہ نہیں،میر جس کے سبب بیمار ہو ئے ہیں اب اس عطار کے لونڈے سے دوا نہیں لیتے!
اب جب میر سادہ نہیں رہے تو ایک عالم،مقرر،سحر انگیز خطیب۔پروٹوکول میں رہنے والے پیر نماں مُلا،زمانے کے آدمی،زمانہ شناس،دشمن سے بھی یا ری،دوست سے بھی بغلگیر،عمران خان سے یارانہ اور نواز شریف کی بیگم کا جنازہ پڑھانے والے،زردا ری صاحب کے لیے دعا خیر کرنے والے اور مولانا فضل الرحمن کو اسلام کا خدمت گار کہنے والا طارق جمیل ان گم شدہ لوگوں سے کیسے واقف نہیں جن کے لیے اسلام آباد میں آمنہ مسعود جنجوعہ احتجاج کرتی ہے۔کوئٹہ میں ماما قدیر سیکڑوں نہیں ہزاروں دنوں سے احتجاج کر رہا ہے۔سندھ کا کوئی پریس کلب نہیں جہاں مائیں اپنے پیاروں کی تصویریں لیے نہ بیٹھی ہوں،کراچی میں سمی بلوچ رو تی ہے۔پشاور میں پختون مائیں سراپا احتجاج ہیں جن کی رو رو کر نظر چلی گئی ہے۔پنجاب میں مائیں اپنے گم شدہ بیٹوں کو دن تو دن پر رات میں بھی ڈر کر آوازیں دیتی ہیں کہ کہاں ہو لوٹ آؤ؟
جہاں مائیں انتظار کی کیفیت میں مر گئیں،ایسی کوئی ایک دو مائیں نہیں جن ماؤں نے پہلے انتظار کی کیفیت کو جھیلا پھر اپنے پیاروں کو دیکھے بغیر ہی مٹی میں دفن ہو گئیں۔
ایسی مائیں،ایسی بیٹیاں اور ایسے درد کو دیکھ کر بھی طارق جمیل اداکا ری کر تا ہے کہ
”کون سے گم شدہ لوگ؟“
طارق جمیل حقوق العباد کا تو چئیمپن بنتا ہے
پر وہ جانتا ہی نہیں کہ اس ملک کا سب سے بڑا المیہ تو گم شدہ افراد ہیں
روتی مائیں ہیں
مسافر بیٹیاں ہیں
درد جھیلتی بہنیں ہیں
اداس آنکھوں سے دروں کو دیکھتے بچے ہیں
پاگل ہو تی مائیں ہیں
روتی ماتم کرتی،چیختی،چلا تی محبوبائیں ہیں جن کی بانہوں سے ان کے پیاروں کو اُٹھا لیا گیا
جن چھوٹی بیٹیوں کے بابا جب گم ہوئے جب وہ معصوم تھیں
اب وہ اتنی بڑی ہو گئی ہیں کہ خود ریا ست سے سوال کرتی ہیں کہ
”ہمارا بابا کہاں ہے؟!!“
طارق جمیل کو بتا دو
وہ گم شدہ لوگ جن کی مائیں ہر عید میں ان کے بنائے ہوئے کپڑے جو تے لیے روڈوں پر آتی ہیں
ماتم کرتی ہیں
اور نما شام گھروں کو لوٹ جا تی ہیں
طارق جمیل کو بتا دو
وہ گم شدہ لوگ جن کو ایک دو دن نہیں پر ایک عشرہ بیت گیا ہے اور وہ گھروں کو نہیں لوٹے
طارق جمیل کو بتا دو
فرزانہ مجید کا بھائی
طارق جمیل کو بتادو
ڈاکٹر دین محمد
اور
اور
اور اور
یہ کوئی آج کی بات نہیں یہ درد دو عشروں پر مہیت ہے
اور طارق جمیل کو یہ بھی بتا دو کہ گم شدہ لوگ اس ملک کا سب سے بڑا المیہ ہیں!
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں