بلوچ ورنا موومنٹ کے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ خطے کے تیزی سے بدلتی ہوئی حالات اس بات کا تقاضا کررہے ہیں کہ بلوچ من حیث القوم اپنی قومی بقاء، شناخت اور آزادی کے لئے متحد ہوجائیں اور موجودہ گھمبیر سیاسی حالات کا بحثیت ایک قوم مقابلہ کریں۔ افغانستان میں حالات جس تیزی سے بدل رہے ہیں اور شدت پسند جس رفتار سے پیش قدمی کررہے ہیں اگر شدت پسند افغانستان میں اقتدار پر قابض ہوگئے تو بلوچستان اس تبدیلی سے سب سے زیادہ متاثر ہوگی اور طالبانائزیشن سوچ کے حامل مسلح ریاستی جھتے بلوچستان میں بلوچ نیشنل ازم کے خلاف مزید متحرک ہونگے۔
بیان میں مزید کہا گیا ہے پاکستانی فوج اور حکومت کی جانب سے مذاکرات کا شوشہ موجودہ صورتحال میں بلوچ قومی تحریک کو کمزور کرنے کے لئے چھوڑا گیا ہے، ریاست افغانستان میں بدلتی ہوئی صورتحال کی وجہ سے سراسیمگی اور خوف کا شکار ہے وہ نام نہاد مذاکرات کے آڑ میں بلوچ قوم کو نام نہاد، غیر ضروری بات چیت میں مصروف رکھنا چاہتی ہے تاکہ اگر خطے میں کوئی تبدیلی رونما ہوتی ہے تو بلوچ اس تبدیلی کا حصہ بننے کے بجائے اس غیر فطری ریاست کیساتھ بات چیت میں مصروف رہ کر ٹائم ضائع کریں۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ شاہ زین بگٹی کو معاون خصوصی مصالحت و ہم آہنگی مقرر کرنا اور میڈیا پر سرفراز بگٹی اور انوار الحق کاکڑ کو حکومتی ترجمان مقرر کرنے سے ہی مذاکرات میں ریاستی سنجیدگی کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ ریاست بلوچستان کے مسئلے کو کتنی سنجیدہ لے رہی ہے۔ موجودہ حالات میں بلوچ لیڈر شب یہ بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ حالات اور واقعات کا انتہائی سنجیدگی سے تجزیہ کریں اور بدلتے حالات کا باریک بینی سے جائزہ لیں تاکہ آج کا کوئی فیصلہ مستقبل میں بلوچ قوم کے لئے مزید تباہی اور تحریک کے لئے نقصان و مشکلات کا باعث نہ بن سکیں۔
بیان میں مزید کہا ہے کہ امریکا افغانستان سمیت اس خطے میں امن، استحکام اور خوشحالی لانا چاہتی ہے تو بلوچستان کی آزادی ہی اس کی ضامن بن سکتا ہے اور مستقبل قریب میں خطہ اسلامی شدت پسندی اور مزید تباہی سے بچ سکتا ہے، اس کے علاوہ جب تک پاکستان ایک فریق کے طور پر سیاسی افق پر موجود رہے گا تب تک اس خطے میں امن کی خواہش محض ایک خواب بن کر رہی گی امن کبھی نہیں آئے گی۔
ترجمان نے اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین سے اپیل کرتے ہوئے کہا ہے کہ افغانستان میں طالبان کی پیش قدمی سے وہاں آباد بلوچ مہاجرین کی زندگیوں کو شدید خطرات لاحق ہیں کیونکہ بلوچ مہاجرین میں ایک بہت بڑی تعداد خواتین اور بچوں کی ہے لہذا ان کو تحفظ دینے اور کسی محفوظ مقام پر منتقل کرنے کے لئے کردار ادا کریں۔